Sunday, March 6, 2016

توہین رسالت- پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید

نگلینڈ کے مجموعہ قوانین میں آج بھی بلاسفیمی کا قانون موجود ہے۔جو 1860ہندوستان میں بھی لاگو کر دیاگیا تھا اور94 18میں دفعہ 124-A تعزیرات ہند میں شامل کر دی گئی۔ بعد میں اس قانون میں سیکشن 153-Aبھی شامل کر دیا گیا۔جس کے تحت پہلا مقدمہ ایک ہند وناشر،راج پال کے خلاف رنگیلا رسول نامی توہیں رسالت سے متعلق کتاب کی اشاعت پر قائم کیا گیا۔جس پر اس کو سزا بھی ہوئی ۔مگر ہائی کورٹ نے اس کی سزا معطل کردی۔ جس سے ہندوستان کے مسلمانوں میں اشتعال عروج پر پہنچ گیا ۔محبتِ رسول سے مغلوب ہو کر ایک دلیر مسلمان غازی علم دین شہید نے راج پال کو جہنم رسید کر کے خود بھی انگریز کے ہاتھوں شہادت سے سرفرازہوا۔مسلمانو کے مطالبے پر 1927 کے ترمیمی انڈین ایکٹ میںدفعہ 295-A بھی شامل کر دی گئی جس کے تحت توہین رسالت پر سزا کا قانون موجود تھا۔جب 1956 میں پاکستان کا پہلا آئین بنایا گیا تو اس میں بھی اس شق کو بر قرار رکھا۔پہلے مارشل لاء دور میں جب 1961 ایوب خان نے ترمیمی آرڈیننس جاری تو اس آرڈیننس میں بھی توہین رسالت کی شق کو بر قرار رکھا گیا۔ اس طرح پاکستان کے قوانین میں ہمیشہ کسی نہ کسی شکل میں توہین رسالت کا قانون موجود رہا ہے۔1980 میں ایک ترمیمی آردننس کے ذایعے ایک اور شق 298-A کو بھی شامل کر لیا گیاجس کے تحت تحریر و تقریر ،اشارتاً یا بالواسطہ یا بلا واسطہ طورپر امہات المومنینیا کسی اہلِ بیت یا خلفائے راشدین میں سے ہفتہ 20 نومبر 2010 کو اسلامی جمہوریہ پا کستان کے صدر نے گورنر پنجاب سلمان تاثر جوسابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے چہیتوں میں شمار ہوتے تھے ۔ آج صدر زرداری کے چہیتوں میں نمبر ون ہیں۔کو صدر آصف علی زرداری نے یہ ہدایت کی تھی کی شیخوپورہ جیل میں جا کر سزائے موت پانے ولی عورٹ آسیہ(مسیح)سے ملاقات کر کے اسکی رہائی کے لئے کاغذات تیار کر کے۔اس کا معافی نامہ اور سزا کے خاتمے کی اپیل تیار کروا کے ایوانِ صدر بھجوائیںتاکہ اسکی سزا ختم کی جا سکے ۔ گونر نے اس ضمن میں با قاعدہ پریس کانفرنس کر کے کہا کہ آسیہ کے کیس کا تعلق انسانیت سے ہے۔انہیں عافیہ صدیقی کے کیس کا تعلق انسانیت سے نظر نہیں آیا؟یہ یہودیوں عیسائیو اور ہندووں کے ایجنٹ کب تک اس ملک کی جڑوں کو کھو کھلا کرت رہیں گے؟؟؟ہر مذہب کے علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ توہین رسالت کے قانون میں اگر تبدیلی کی کوشش کی گئی تو ملک خانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا۔
آسیہ( مسیح)ایک باغ میںمسلمان خواتین کیساتھپھلوں کے باغ میں یومیہ اجرت پر کام کرتی تھی مبینہ طور ایک دن مسلمان خواتین کے اس کے ہاتھ سے پانی پینے کے انکار پر ان کے درمیان تکرار ہوئی جس کے دوران مبینہ طور آسیہ (مسیح) نے رسول پاک حضرت محمد کی شان میں گستاخی کی جس پر خواتین میں اشتعال پیدا ہوا اور جھگڑا طول پکڑتا گیا۔نوبت عدالت تک پہنچ گئی جہاں ٹھوس شہادتوں کی بنیاد پر آسیہ (مسیح) مجرم پائی گئی ۔ جس کی بناء پر آسیہ( مسیح)کو عدالت نے سزائے موت کی مجرم قرار دیدیا ۔یہاں قرآن کا ایک حوالہ دے کرہم بات آگے بڑھائیں گے (سورۃ الحجرا ت آیت نمبر95 )میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ (اے پیغمبر)’’آپ کا مذاق اڑانے والوں سے نمٹنے میںمیں(اللہ)خو د ہی کا فی ہو ں ‘‘اس آسیہ مسیح کی پر ہر جانب سے اسلام سے برگشتہ معاشرے کے چہرے کے بد نما داغ مجرمہ کی حمایت میں بیک زبان بو لنے لگے ہیں۔ ا گر انہیں عدالت کے فیصلے سے اختلاف ہے تو یہ عالیٰ عدلیہ میں رجوع کر سکتی ہے۔ در حقیقت ایسے معاشرے کے دھبے امریکہ بر طانیہ میں سیٹل ہونے کے لئے ایسے مذموم ڈرامے رچاتے رہتے ہیں۔قانوں تو ہین رسالت کے خاتمہ کے لئے قادیانی لابی دن رات زور لگا رہی ہے ۔ایک صاحب مسلمان بنکر قرآن و حدیث کی روزانہ کئی کئی میلیں پاکستا ن کے میڈیا پر سنز اور عوام کو خاص طور پربھیج رہے ہیں ۔
کہیں وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں کافر بنانے کی فیکٹریاں کھولی ہوئی ہیں پہلے قادیا نیوں کو کافر قرا ر دیا گیا…. کہیں کہتے ہیں کے اللہ کے رسول نے کبھی اپنے آپ کو برا بھلا کہنے والوں سے بدلہ نہیں لیا۔تو انہیں پتہ ہونا چاہیئے اللہ نے انہیں رحمت اللعا لمین بناکر بھیجا تھا۔مگر رب کائنات نے یہ بھی انتظام کر دیا کہ کوئی اس کے محبوب پیغمبرمحمدمصطفےٰ کی شا ن میں گستاخی کا مرتکب نہ ہونے پائے ۔ ایسے کافروں کے بارے میں(سورہ احزاب آیت نمبر 57 ) میں ارساد باری تعالیٰ ہے کہ ’’بلا شبہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں اُن پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی طرف سے پھٹکار اور اُن کے لئے رسوا کرنے والا عذا ب مہیا کر دیا گیا ہے‘‘ اسی طرح ( سورہ انفال کی آیت نمبر 13)میں حکمِ باری تعالیٰ ہے کہ’’یہ حکمِ قتال اس لئے دیا گیا ہے کہ انہو ں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی اور جو اللہ اور اس کے رسو ل کی مخالفت کرتا ہے تو بلا شبہ اللہ اس کے لئے سخت گیر ہے‘‘
قومی کمیشن برائے ترقی نسواں سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور میں 17 جولائی 2000 کو ایک آرڈیننس کے ذریرے تشکیل دیا گیا تھا۔جس کا مقصدخواتین کی ترقی اور ا ن امتیازی سلوک کے قوانین پر نظر ثانی کرنا بتا یا گیا تھا۔ اس حوالے سے قومی کمیشن برائے ترقی نسواں کی اکٹیوسٹوں نے قانونِ توہین رسالت کوقادیانیت اور عیسائیت کی ترجمانی کرتے ہوے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان اسلام سے برگشتہ امریکی ڈالز پر پلنے والی کمیشن کی ترجمان خواتین کی جانب سے گستاخ اور زبان دراز عیسائی عورت آسیہ (مسیح) کیس میں اپنی مصنوئی تحقیقاتی رپورٹ بھجوائی ہے جو توہینِ عدالت کے زمرے میں اس وجہ سے آتی ہے کہ اگر اس فیصلے پر کسی کو اعتراض تھا تو وہ اپیل میں اعلیٰ عدا لت میں کیوں نہیں کئی۔عیسائی چرچ جہاں اربوں روپیہ مسلمانوں کو بر گشتہ کرنے میں خرچ کر رہا ہے تو اُس نے اپنی ماننے والی کی خبر گیری میں اعلیٰ عدالت سے رجو ع کیوں نہیں کیا؟اس کا مطلب یہ ہے کہ آسیہ (مسیح)مجرمہ ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ آئے دن عیسایت پیغمبرِ اسلام کی مختلف طریقوں سے توہین کرتی نظر آتی ہے۔ کمیشن کے لوگوں کا کہنا ہے کہ آسیہ پر ذاتی دشمنی کی بنا پر الزام لگایا گیا ہے۔بڑ ے افسوس اور شرم کا مقام ہے کیا کبھی ان ڈالرز دہ خواتین نے عافیہ صدیقی کے لئے بھی حقوق نسواں کے حوالے سے آواز ٹھائی؟؟؟ جسکو متعصب عیسائیت نے محض مسلمان اور ذہین وفطین خاتون ہونے جرمِ بے گناہی کی سزا دی ہے۔
سلمان تاثیر جو غیر مسلموں کے تو بہت بڑ ے ہمدرد ہیں کیا کبھی انہوں نے اپنے آقا سے عافیہ صدیقی کے لئے بھی جرمِ بے گناہی کاپر رحم کی اپیل کی؟؟؟یہ مصنوعی چہرے دیکھ دیکھ کر پاکستانی قوم اکتا چکی ہے۔کبھی ترقی نسواں والی بے پردہ اور اسلام سے پریشان خواتین نے بھی عافیہ کے حق میں کوئی ایک جملہ ہی کہا؟؟؟ ایک لعنتی عورت پر ان کی مہربانیوں کی کیا وجہ ہے یہ سارا پاکستان جانتا ہے!!! انہیں یہ جان لینا چاہیئے کہ پاکستان میں عسایت یا قادیانیت کا قانون ہر گز نہیں چلے گا۔ان لوگوں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ تعزیرات پاکستان کے سیکشن-C 295جو جنرل ضیاء الحق شہیدکے دور میں قانون کا حصہ بنا جس کے تحت زبانی یا تحریری یا اشاروں کنایوں یا دکھائی دینے والی اشکال کے ذریعے یا بذریعہ تہمت اور طعن آمیز اشارے کے ذریعے برائے راست یا بلواسطہ آنحضرت کی توہین یا شان میں گستاخی کرے گا اس کی سزاموت عمر قید اور جرمانہ ہے۔
ترقیِ نسواں کے علاوہ مختلف این جی اوز پوپ بینڈک اور درپردہ بعض عیسائی حکومتوں کی طرف سے بھی حکومت پرتوہین رسالت کے قانون میں ترمیم یا س کی منسوخی پر زور دیا جا رہا ہے ۔حقوق نسواں کی چیئرمین انیس ہارون نے گستاخِ رسول آسیہ( مسیح)کیس کے ضمن میں بتایا ہے کہ حقوق نسواں کمیشن کی ایک رکن نے تحقیقات کی ہے جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ آسیہ (مسیح) پر الزام بہ اثر لوگوں کے دباؤ پر لگایا تھا۔جس کاکہنا ہے کہ ہم نے صدر سے اپیل کی ہے کہ آسیہ کو چھوڑ دیا جائے اوراس کو تحفظ فراہم کیا جائے اور تعزیراتِ پاکستان کا سیکشن 295-C ختم کر دیا جائے۔وزارت قانون کے حکام کا کہنا ہے کہ (سلمان تاثیر کے اشارے پر)توہین رسالت کے جرم میں قید عیسائی عورت نے صدر آصف عی زرداری سے رحم کی اپیل کر دی ہے۔اس کی طرف سے معافی نامہ صدر کو بھیجدیا گیا ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس پرجلد دستخط کر دیں گے۔ گونر پنجاب سلمان تاثیر نے یہ بات ڈسٹرکٹ جیل شیخوپورامیں آسیہ (مسیح) سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوے کہی ان کا کہناہے کہ آسیہ مسیح کے معاملے کا تعلق انسانیت سے ہے؟؟؟انسانیت کے اتنے بڑے علم بردار آپ لوگ کب سے بن گئے ہیں؟؟؟عافیہ صدیقی کے معاملے میں آپ لوگوں کی انٹر نیشنل این جی اوز اور امریکہ کی انسانیت سے ہمدردی کی حس کہاں چرنے چلی گئی تھی؟؟؟
تعجب خیز بات یہ ہے کہ جمعہ 26 نومبر 2010 کو اپوزیشن کی 5 جماعتوں پی پی پی،ایم کیو ایم،اے این پی،مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق کے 12 ارکان نے توہینِ رسالت کے قانون کے خاتمے کے لئے قومی اسمبلی میں ایک تحریک جمع کرادی ہے۔جس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کی یہ تمام سیاسی جماعتیں مغرب سے ڈکٹیشن لے رہی ہیں۔اس تحریک میں کہا گیا ہے کہ آسیہ (مسیح) کو توہین رسالت کے الزم میں 8 نومبر 2010 کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا۔بقول محرکین تحریک مسلمان خواتین نیآسیہ (مسیح) پر توہینِ رسالت کا جھوٹا الزام لگاکر مقدمہ درج کرا دیا گیا۔اس تحریک میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ اقلیتوں کے خلاف ناروا سلوک پاکستان کے نظریہ اور قانون کے خلاف ہے۔مزید یہ بھی لکھا گیا ہے کہ توہین رسالت کی آر میں لوگوں سے ایتقام لیا جا رہا ہے۔آسیہ مسیح کا کیس سچ ہو نے کے باوجودان محرکین کو عافیہ صدیقی کی بے گناہی انہیں کبھی کیوں نظر نہ آئی؟ جس پر عیسائی قوتوں نے تعصبات کی بنا پر جھوٹے الزمات لگائے۔اس وقت تعصبات سے پاک ہونے کی لہر ان میں کیوں نہ اٹھی؟اُس وقت ان کا ضمیر کہاں سو رہا تھا؟اس لئے کہ وہ اسلام کی بیٹی تھی جس سے ان کے اَن داتا نفرت کرتے ہیں…. ان ارکان نے مطالبہ کیا ہے کہ قانونِ توہیں رسالت کو ختم یا اس پر نظرِ ثانی کی جائے اور آسیہ( مسیح )کی رحم کی اپیل منظور کی جائے!!!ہم پوچھتے ہیں کہ معزز ارکان نے یہ اپیل اعلیٰ عدلیہ میں کیوں نہ دائر کی؟اس ملک کے قانون کو نا ماننے والوں کی حمایت کرنا بھی میرا خیال ہے مجرمانہ فعل ہے ۔جس کی کسی طرح بھی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔ایسے مجرموں کے تو آپ جیسے بے تحاشہ طاقتور حمائتی موجود ہیں۔
یہ بات ہر با ضمیر شخص کہے گا کہ بے گناہ فرد کو کسی بھی قانوں میں سزا نہیں دی جاسکتی ہے اور اگر کوئی جھوٹا مقدمہ درج کراتا ہے اور وہ عدالت میں ثابت بھی ہو جاتا ہے تو ایسے شخص کو تو سزا سے کوئی بچا ہی نہیں سکتا ہے۔ اگر آسیہ (مسیح) بے گناہ تھی تو اس نے اپنی بے گناہی ثابت کیوں نہیں کی۔اس کا وضح مطلب یہ ہے کہاس کے حمائتی عدالتوں کا بھی مذاق اڑانے پر کمر بستہ ہو چکے ہیں وہ صرف اپنی کسوٹی پر آسیہ(مسیح) کو بے گنا ثابت کروانا چاہتے ہیں اور قانون کی دھجیاں بکھیر نے پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔
یہ بات ان تمام لوگوں کو جان لینی چاہئے کہ پاکستان کا کوئی بھی محب نبی توہین رسالت کے ایکٹ میں تر میم کی اجازت ہر گز ہر گز نہ دے گا۔ اگر اس ایکٹ میں ترمیم کر دی گئی تو آسیہ جیسے بد زبان اور نا معقول لوگوں کے لئے توہین رسا لت کا راستہ ہمیشہ کے لئے کھولدیا جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی مذہبی اور سیاسی جماعتیں عیسایت اور قادیانیت کا یہ ایجنڈا کبھی پورا نہ ہونے دیں گی۔یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان کی سات سیاسی دینی اور جماعتوں کے درمیان آئین میں توہین رسالت ایکٹ میں ترمیم کے خلاف بھر پور مہم چلانے پر اتفاق ہو گیا ہے۔ان جماعتوں کا کہنا ہے کہ توہین رسالت ایکٹ میں ترمیم کی اجازت کسی صورت میں نہیں دی جائے گی۔ق لیگ کے رہنما چوہدری شجاعت حسین،جمیعت العلمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان،جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ اور دیگر دینی جماعتوں کے قائدین سے بھی اس سلسلے میں رابطے کئے جا رہے ہیں۔ان جماعتوں نے آئین کی شق 295-C کو پاکستان کو وجود کی بنیاد قرار دیتے ہوے توہین رسالت کے مرتکب افراد کو پھانسی دینے کی سزا معاف کرنے والوں کے خلاف اسمبلی کے ایوان کے اندر اور باہر بھر پور مذاحمت کرن کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ان جماعتوں کا کہنا ہے کہ توہین رسالت کے مرتکب افراد کی پھانسی کی سزا ختم کرنے کے صدارتی اختیار ات کو ختم کر دیا جائے گا۔

No comments:

Post a Comment