( روزنامہ جسارت 2009-03-19 )
سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی بیٹی شہربانو تاثیر نے ناموس رسالتﷺ قانون
کے مسئلہ پر اپنے والد کے موقف کی تائید کرتے ہوئے اس عز م کا اظہار کیا
ہے کہ ان کے والد نے ناموس ِ رسالت ﷺ کے قانون میں ترمیم کے حوالے جو کچھ
سوچا تھا وہ ان کی ( یعنی سلمان تاثیر کی بیٹی ) زندگی میں ضرو شرمندہ
تعبیر ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ان کے والد آئین کے اس شق کے مخالف تھے جس میں
احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ گزشتہ
احمدیوں کی عبادت گاہ پر حملے کے بعد جب ان کے والد نے جائے وقوع کا دورہ
کیا، متاثرین کے گھر گئے اور اسپتال میں زخمیوں کی عیادت کی تو اسی وقت سے
انہیں فون پر سنگین نتائج کی دھمکیاں ملنی شروع ہوگئی تھیں۔شہر بانو تاثیر
نے پاکستان کے عدالتی نظام میں اہم اور بنیادی اصلاحات کا مطالبہ کرتے ہوئے
کہا کہ جب پاکستان کی ہائی پروفائل شخصیت اور سب سے بڑے صوبے پنجاب کے
گورنر کو تحفظ نہیں فراہم کیا جاسکا تو اس ملک میں عام آدمی کا کیا حال
ہوگا؟میرے والد کو بابابلھے شاہ کی طرح بھلایا نہیں جاسکے گا،وہ نہ صرف ایک
بہادر انسان بلکہ قوم کے ہیرو ہیں۔ ان خیالا ت کا اظہار انہوں نے بھارتی
ٹیلی ویژن کو انٹرویو میں کیا۔ شہربانو تاثیر نے کہا کہ یقیناً والد کے قتل
سے ہم سب کو شدید دھچکا لگا ہے جس پر دنیا بھر سے تعزیتی پیغامات آئے، یہ
ہمارے لیے مشکل وقت ضرور ہے لیکن ان حالات میں بھی دنیا بھر سے ہماری حمایت
میں آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے والدنہ صرف ایک بہادر
انسان بلکہ قوم کے ہیرو ہیں۔ ایک سوال پر شہربانو تاثیر نے کہا کہ پاکستان
کے موجودہ جوڈیشل سسٹم کے لیے یہ امتحان کی گھڑی ہے کہ ہمارے ججز حضرات،
پراسیکیوٹر اور وکلاء اس معاملے کو کس طرح لیتے ہیں۔
ممتاز قادری پنجاب کی ایلیٹ فورس کا اہلکار تھا اور وہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے سرکاری محافظوں میں شامل تھا، ا س نے گورنر کو جنوری 2011ء میں اسلام آباد میں ایسے وقت گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا جب سلمان تاثیر ایک ریسٹورنٹ سے نکل کر اپنی گاڑی میں بیٹھ رہے تھے۔پنجاب کے ا س وقت کے گورنر سلمان تاثیر نے 2010ء میں ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو توہین مذہب کے ایک مقدمے میں سزا سنائے جانے کے بعد، ا س خاتون سے جیل میں ملاقات کی تھی اور موجودہ قوانین میں ترمیم کا مطالبہ کیا تھا۔ ممتاز قادری نے گرفتاری کے بعد اپنے اعترافی بیان میں کہا تھا کہ ا س نے سلمان تاثیر کو اس لیے قتل کیا کیوں کہ گورنر نےتوہین رسالت کے قانون کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے اس کی تبدیلی کی حمایت کی تھی۔اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے 2011ء میں ممتاز قادری کو دو بار سزائے موت اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ممتاز قادری نے اس سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی جس پر عدالت عالیہ نے انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت ممتاز قادری کو سنائی گئی سزائے موت کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ تاہم فوجداری قانون کی دفعہ 302 کے تحت اُس کی سزائے موت کو برقرار رکھا گیا۔لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف جب سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تو عدالت عظمٰی نے ممتاز قادری کی اپیل خارج کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کو بحال کر دیا تھا۔سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ توہین مذہب کے مرتکب کسی شخص کو اگر لوگ ذاتی حیثیت میں سزائیں دینا شروع کر دی جائیں تو اس سے معاشرے میں انتشار پیدا ہو سکتا ہے۔ عدالت عظمٰی کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف ممتاز قادری نے سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی بھی درخواست کی لیکن اسے بھی
خارج کر دیا گیا۔
خارج کر دیا گیا۔
سلمان تاتیر کا بیٹا شہباز جو طالبان کی قید میں تھا اور اسے ۸ مارچ ۲۰۱۶ کو بازیاب کرایا گیاہے
No comments:
Post a Comment