Tuesday, March 1, 2016

سلمان تاثیر





نئی دہلی (ثناءنیوز )گورنرپنجاب سلمان تاثیر کے بھارتی سکھ خاتون صحافی تلوین سنگھ کے بطن سے پیداہونے والے بیٹے آتش تاثیر نے کہاہے کہ اگرچہ میں گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا بیٹا ہوں تاہم میں نظریہ پاکستان کو تسلیم نہیں کرتا، یہ ایک غلط نظریہ تھا ،اس نظریے نے سندھ اور پنجاب کے خاندانوں کو تقسیم کر دیا ،پاکستانیو ںکی سوچ ان مقاصد سے مختلف تھی جن کے لیے پاکستان حاصل کیاگیا تھا۔انہوں نے کہاکہ لاہور میں رہنے والے میرے والد ، ان کی بیوی ، میرے بھائی اور بہن نے میرے لیے اپنے دروازے بند کر رکھے ہیں، مجھے امید ہے کہ میرے والد کو ایک دن صورتحال کا احساس ہو جائے گا، وہ اسلام کے بارے میں میری تحریروں پر برہم ہیں تاہم میں نے اپنی کتاب میں بتانے کی کوشش کی ہے کہ میرے والد کیسے مسلمان ہیں ۔۔۔۔آتش تاثیر کی کتاب ” تاریخ کا اجنبی ، ایک بیٹے کا اسلامی سرزمین کا سفر “ بھارت میں شائع ہو گئی ہے۔ آتش تاثیر کا انٹرویو بدھ کے روز بھارتی جریدے ” آوٹ لک “ میں شائع ہوا ۔ انہوں نے کہا ہے کہ سلمان تاثیر سے میری آخری بار ملاقات بے نظیر کے قتل کے بعد لاہور میں ہوئی تھی میں اپنی والدہ کے ساتھ بھارت میں بڑا ہوا، برطانیہ میں مقیم رہا ۔یہ کتاب میری ذاتی زندگی کے بارے میں افسانوی طرز کی کہانی مبنی ہی، میری پیدائش بھارتی صحافی تلوین سنگھ اور سلمان تاثیر کے درمیان ایک ” مختصر مگر بھرپور تعلق “کے نتیجے میں ہوئی ، میں اپنے لیے راستہ بنانے کی کوشش کر رہا تھا تاکہ میں کل وقتی صحافی بن سکوں، ٹائم میگزین میں کام کرتے ہوئے میں شدید اضطراب کی کیفیت کا شکار تھا، رپورٹر کے طور پر میری نوکری تقریباً کلرکوں کی طرح کی تھی ،میں چاہتا تھا کہ اس سے باہر نکلوں، ٹائم میگزین نے ایک ایڈیشن ” اسلام کی روح “ کے نام سے شائع کیا اور میں نے اس کے لیے برطانیہ کے شمالی حصے میں رپورٹنگ کی ،میں نے ایک مسلمان انتہا پسند حسن بٹ کا انٹرویو کیا تھا، ٹائم میگزین نے اسے بائی لائن شائع کیا، یہ انٹرویو ایک سال بعد ” پراسپکٹس میگزین “ میں بھی شائع ہوا، اس تحریر کے جواب میں میرے والد نے مجھے جوابی خط میں زبردست ڈانٹ پلائی ،ان کا موقف تھا کہ میں نے اسلام کو بدنام کیا، والد کے اس رویے سے مجھے سخت صدمہ پہنچا اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ میرے والد کیسے مسلمان ہیں؟ وہ ایک مسلمان کی طرح کیسے کام کرتے ہیں؟ ان کی شخصیت میں مذہب کا اثر کس طرح کاہی؟آتش تاثیر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جو شخص مجھ سے کہہ رہا ہے کہ میں اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کر رہا ہوں وہ خود کیسا مسلمان ہے جو ہر شام ”اسکاچ “پیتا ہے ، روزے رکھتا ہے اور نہ نماز پڑھتا ہی،عورتوں کا رسیا ہے حتیٰ کہ سور کا گوشت تک کھاتا ہے ، میرے خیال میں وہ حقیقی مسلمان نہیں ہیں ۔آتش تاثیر نے کہاکہ پاکستانیو ںکی سوچ ان مقاصد سے مختلف تھی جن کے لیے پاکستان حاصل کیاگیا تھا،میں ایک طرف بھارتی ہوں دوسری طرف پاکستان کے ساتھ گہری وابستگی ہی، یہ فاصلے اور اجنبیت محسوس کرتا ہوں دونوں ملکوں کو ساتھ لے کر چلنا خطرناک اور مشکل ہی،میری کتاب کا کوئی حصہ پاکستان کے خلاف ہے توایسا نہیں ہے ۔انہوں نے کہاکہ سلمان تاثیر ایک کاروباری شخص ہیں، اپنی تیسری خوبصورت بیوی اور6 بچوں کے ساتھ خوش ہیں ،ایک ایسا شخص جو بے نام تھا اچھا کاروباری تھا اسے گورنر پنجاب نہیں بننا چاہیے تھا۔ آتش تاثیر نے برطانیہ میں قیام کے دوران لیڈی ڈیانا کے خاندان سے تعلق رکھنے والی شہزادی گبریلا ونڈسر سے منگنی کی تھی، اس دوران عمران خان کی سابق اہلیہ جمائمہ خان کے بھائی کا گبریلا سے معاشقہ شروع ہو گیا، گبریلا کے خاندان نے یہ کہہ کر منگنی توڑ دی تھی کہ جمائمہ خان کی ناکام شادی کی طرح ایک اور شادی نہیں ہونی چاہیے ۔آتش تاثیر نے گبریلا سے تعلق کے بارے میں کہا کہ میرا گبریلا کے ساتھ اچھا وقت گزرا ” ہیلو میگزین “ نے گبریلا اور میرے تعلق کو غلط انداز میں پیش کیا تھا ۔


( روزنامہ جسارت 2009-03-19 )




 ‪shehr bano taseer‬‏ کیلئے تصویری نتیجہ


سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی بیٹی شہربانو تاثیر نے ناموس رسالتﷺ قانون کے مسئلہ پر اپنے والد کے موقف کی تائید کرتے ہوئے اس عز م کا اظہار کیا ہے کہ ان کے والد نے ناموس ِ رسالت ﷺ کے قانون میں ترمیم کے حوالے جو کچھ سوچا تھا وہ ان کی ( یعنی سلمان تاثیر کی بیٹی ) زندگی میں ضرو شرمندہ تعبیر ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ان کے والد آئین کے اس شق کے مخالف تھے جس میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ گزشتہ احمدیوں کی عبادت گاہ پر حملے کے بعد جب ان کے والد نے جائے وقوع کا دورہ کیا، متاثرین کے گھر گئے اور اسپتال میں زخمیوں کی عیادت کی تو اسی وقت سے انہیں فون پر سنگین نتائج کی دھمکیاں ملنی شروع ہوگئی تھیں۔شہر بانو تاثیر نے پاکستان کے عدالتی نظام میں اہم اور بنیادی اصلاحات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ جب پاکستان کی ہائی پروفائل شخصیت اور سب سے بڑے صوبے پنجاب کے گورنر کو تحفظ نہیں فراہم کیا جاسکا تو اس ملک میں عام آدمی کا کیا حال ہوگا؟میرے والد کو بابابلھے شاہ کی طرح بھلایا نہیں جاسکے گا،وہ نہ صرف ایک بہادر انسان بلکہ قوم کے ہیرو ہیں۔ ان خیالا ت کا اظہار انہوں نے بھارتی ٹیلی ویژن کو انٹرویو میں کیا۔ شہربانو تاثیر نے کہا کہ یقیناً والد کے قتل سے ہم سب کو شدید دھچکا لگا ہے جس پر دنیا بھر سے تعزیتی پیغامات آئے، یہ ہمارے لیے مشکل وقت ضرور ہے لیکن ان حالات میں بھی دنیا بھر سے ہماری حمایت میں آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے والدنہ صرف ایک بہادر انسان بلکہ قوم کے ہیرو ہیں۔ ایک سوال پر شہربانو تاثیر نے کہا کہ پاکستان کے موجودہ جوڈیشل سسٹم کے لیے یہ امتحان کی گھڑی ہے کہ ہمارے ججز حضرات، پراسیکیوٹر اور وکلاء اس معاملے کو کس طرح لیتے ہیں۔
 





ممتاز قادری پنجاب کی ایلیٹ فورس کا اہلکار تھا اور وہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے سرکاری محافظوں میں شامل تھا، ا س نے گورنر کو جنوری 2011ء میں اسلام آباد میں ایسے وقت گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا جب سلمان تاثیر ایک ریسٹورنٹ سے نکل کر اپنی گاڑی میں بیٹھ رہے تھے۔پنجاب کے ا س وقت کے گورنر سلمان تاثیر نے 2010ء میں ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو توہین مذہب کے ایک مقدمے میں سزا سنائے جانے کے بعد، ا س خاتون سے جیل میں ملاقات کی تھی اور موجودہ قوانین میں ترمیم کا مطالبہ کیا تھا۔ ممتاز قادری نے گرفتاری کے بعد اپنے اعترافی بیان میں کہا تھا کہ ا س نے سلمان تاثیر کو اس لیے قتل کیا کیوں کہ گورنر نےتوہین رسالت کے قانون کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے اس کی تبدیلی کی حمایت کی تھی۔اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے 2011ء میں ممتاز قادری کو دو بار سزائے موت اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ممتاز قادری نے اس سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی جس پر عدالت عالیہ نے انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت ممتاز قادری کو سنائی گئی سزائے موت کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ تاہم فوجداری قانون کی دفعہ 302 کے تحت اُس کی سزائے موت کو برقرار رکھا گیا۔لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف جب سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تو عدالت عظمٰی نے ممتاز قادری کی اپیل خارج کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کو بحال کر دیا تھا۔سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ توہین مذہب کے مرتکب کسی شخص کو اگر لوگ ذاتی حیثیت میں سزائیں دینا شروع کر دی جائیں تو اس سے معاشرے میں انتشار پیدا ہو سکتا ہے۔ عدالت عظمٰی کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف ممتاز قادری نے سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی بھی درخواست کی لیکن اسے بھی 
خارج کر دیا گیا۔








سلمان تاتیر کا بیٹا شہباز جو طالبان کی قید میں تھا اور اسے ۸ مارچ ۲۰۱۶ کو بازیاب کرایا گیاہے

No comments:

Post a Comment