Wednesday, March 2, 2016

پھانسی



ممتاز قادری کو 29 فروری 2016ء کو اڈیالہ جیل میں پھانسی دی گئی۔جیل حکام کے مطابق ممتاز قادری کو اتوار اور پیر کی درمیانی رات پھانسی دی گئی۔پھانسی کے وقت اڈیالہ جیل جانے والے راستے کو سیل کر دیا گیا تھا اور ان کی لاش قانونی کارروائی پوری کرنے کے بعد اہلِ خانہ کے حوالے کر دی گئی ہے۔ممتاز قادری کو پھانسی دیے جانے کا معاملہ انتہائی خفیہ رکھا گیا اور اس بارے میں پنجاب کے محکمہ جیل خانہ جات کے چند افسران ہی باخبر تھے۔ پھانسی دینے والے شخص کو خصوصی گاڑی کے ذریعے اتوار کی شب لاہور سے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل پہنچایا گیا جبکہ عموماً پھانسی دینے والے جلاد کو دو دن پہلے آگاہ کیا جاتا ہے کہ اسے کس جیل میں قیدیوں کو تختہ دار پر لٹکانا ہے۔ پھانسی گھاٹ میں موجود لو گوں کا کہنا ہے کہ ممتاز قادری پھانسی کے وقت حالت روزہ میں تھا اور تختہ دار پر لٹکتے ہوئے اس کی زبان پر درود سلام جاری تھا۔

ممتاز قادری نے اپنی پھانسی سے قبل گھر والوں کو رونے سے منع کردیا اور کہا کہ مجھے کوئی ملال نہیں، میں اپنی جان اپنے نبی پاک کے نام اقدس پر قربان کرنے جارہا ہوں۔ ممتاز 
قادری نے کہاکہ میرے پیچھے سے کسی نے رونا نہیں، فقط درود و سلام پڑھنا ہے۔






 مرنے کے بعد نبی اکرمؐ سے روزے کی حالت میں ملنا چاہتا ہوں۔یہ تھے ممتاز قادر ی کے وہ الفاان کے والد کے مطابق ،ممتاز قادری نے اپنی گھر والوں سے اپنی آخری ملاقات میں کہے۔ ممتاز کے قادری کے وا لد کے مطابق انہوں نے آخری ملاقات میں خصوصی طور پر کھجور اور آب زم زم منگوایا اور ہم سب کو اپنے ہاتھ سے مٹی کے برتن میں آب زم زم کے ساتھ کھجور کھانے کو دی ۔ پھانسی گھاٹ پر جا تے وقت ممتاز قادری کے آخری الفاظ ، ” اللہ اکبر اور یارسولؐ اللہ “ تھے۔‎

No comments:

Post a Comment