Tuesday, March 1, 2016

ملک ممتاز حسین قادری اعوان






ممتاز قادری پاکستان کے روالپنڈی میں سبزی بیچ کر اپنی ضروریات زندگی مکمل کرنے والے 
محمد بشیر اعوان کے سب سے چھوٹے بیٹے کا نام ہے ،تعلیم مکمل کرنے کے بعد 2002 میں پنجاب پولس میں ممتاز قادری کی بحالی ہوگئی ، 2007 میں کمانڈو کی ٹریننگ کے بعد ایلیٹ فورس کا یہ حصہ بن گئے اور صوبہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے سرکاروں میں یہ شامل ہوگئے ،ممتاز قادری کے بھائی کے مطابق یہ شروع سے باشرع،صوم وصلاہ کے پابند اور انتہائی اطاعت گزار تھے ،اسکول سے تعلیم حاصل کرنے اور پولس محکمہ میں ملازمت کرنے کے باوجود ڈاڑھی رکھتے تھے ،نمازوں کا مکمل اہتمام کرتے تھے،سلمان تاثیر کے قتل سے صر ف ایک سال چار ماہ 

قبل شادی
ہوئی اور ایک بچہ بھی تھا۔


 سلمان تاثیر نے 2010 میں ایک مذہب مخالف بیان دیا تھا،پاکستانی میڈیا کے مطابق پاکستان کی ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی توہین مذہب کے جرم میں جیل کی سلاخوں میں بند تھی ،توہین رسالت کے جرم میں مسیحی خاتون کا جیل کی سلاخوں میں رہنا سلمان تاثیر کیلئے ناقابل برداشت ہورہاتھا،چناں چہ 2010 میں سلمان تاثیر پاکستان کے نیوز چینل سماء ٹی وی کو انٹر ویود یتے ہوئے توہین رسالت قانون پر زبردست تنقید کی ، اس قانون میں ترمیم کا مطالبہ کیا ار اس کو کالعدم قراردینے کی تجویز پیش کی۔
سلمان تاثیر کے اس جملہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو بے پناہ تکلیف ہوئی، پاکستان سمیت دنیا بھر کے بڑے بڑے دانشوارن ،علماء اور مذہبی اسکالر نے تاثیر کے اس بیان کی مذمت کی ،انہیں توہین مذہب اور گستاخی رسول کا مجرم قراردیا ،ممتاز قادری بھی بحیثیت ایک مسلمان محافظ دستہ میں شامل ہونے کے باوجود برداشت نہ کرسکا ،رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور توہین رسالت قانون میں تبدیلی کے مطالبہ نے اس کو بے چین کردیا اور موقع نکال کر ا س نے گورنر کو4 جنوری 2011میں قتل کردیا،سلمان تاثیر اسلام آباد میں ایک ریسٹورینٹ سے اپنے دوستوں کو ساتھ میٹنگ کرکے نکل رہے تھے اسی دوران ملک ممتاز قادری نے AK47 سے 27 حملہ کرکے گستاخ رسول سلمان تاثیر کو قتل کردیا ۔
ممتاز قادری کا یہ حملہ اس کی پھانسی کا سبب بن گیا اور ہزاروں مجرموں سے قطع نظر کرتے ہوئے پاکستان کی نواز حکومت نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کے مرتکب اور توہین رسالت قانون کو کاالعدم قراردینے والے کے قاتل کو تختہ دار پر لٹکادیا ۔اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے 2011 میں ممتاز قادری کو دو ہری سزائے موت اور جرمانے کی سزا سنائی تھی ،ممتاز قادری نے اس سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی جس پر عدالت عالیہ نے انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت ممتاز قادری کو سنائی سزائے موت کو کالعدم قرار دے دیا،البتہ فوجداری قانون کی دفعہ 302 کے تحت اُس کی سزائے موت کو برقرار رکھا ،دوسری طرف اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف جب سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تو عدالت عظمٰی نے ممتاز قادری کی اپیل خارج کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کو بحال کر دیا ،پاکستان کی عدالت عظمٰی کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف ممتاز قادری نے سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی بھی درخواست کی لیکن اسے بھی خارج کر دیا گیااور صدرجمہوریہ پاکستان ممنون حسین نے بھی رحم کی اپیل مستردکرکے عاشق رسول کو تختہ دار پر لٹکانے کی حمایت کردی ،بالآخر29 فروری 2016ء کو اڈیالہ جیل میں ممتاز قادری کو تختہ دار پر لٹکادیا گیا۔
ممتاز قادری کی پھانسی سے قبل اور اس کے بعد بھی اس کی مخالفت کی گئی اور یہ سلسلہ جاری ہے ،ممتاز قادری نے عدالت میں واضح طور پر کہاتھاکہ ہم نے سلمان تاثیر کو توہین رسالت قانون میں ترمیم کا مطالبہ کرنے کی وجہ سے قتل کیا ہے اور ہمیں اس پر کوئی افسوس نہیں ہے ،پاکستان کے سابق چیف جسٹس نذیر حسین نے بھی ممتاز قادری کے اقدام کو درست قراردیاتھا ،موجودہ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے دامادکیپٹن صفدر نے بھی ایک مرتبہ اپنی تقریر میں ممتاز قادری کو گستاخ رسول سلمان تاثیر کو قتل کرنے کیلئے مبارکباد پیش کی تھی ۔ممتاز قادری کو تختہ دار پر لٹکایا جانا حکومت پاکستان کا اندورنی مسئلہ ہے ،اس پر کسی طرح کی تنقید بحیثیت ایک ہندوستانی ہم نہیں کرسکتے ہیں لیکن بطور ایک مسلمان ممتاز قادری کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے گستاخ رسول کا سرقلم کرنے میں کوئی دریغ نہیں کیا ، عدالت میں باضابطہ اعتراف کیا کہ ہم نے ایک گستاخ رسول کا قتل کیا ہے ،ا س اقدام پر کوئی افسوس نہیں ہے۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں)



No comments:

Post a Comment