اسلام آباد: سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کی حمایت میں عدالت میں اکھٹا ہونے والے وکلاء کا خیال ہے کہ اس مجرم کا دفاع کرنا ان کی ’مذہبی ذمہ داری‘ ہے۔
منگل کی خنک صبح وہ یہاں پہنچے۔ ان میں ہر عمر، رنگ و خدوخال کے لوگ تھے، دبلے بھی موٹے بھی، درمیانی عمر کے بھی، بوڑھے بھی اور نوجوان بھی۔ روایتی داڑھی کے ساتھ خم دار جُبّے میں ملبوس یا کلین شیو خوبصورت گرم کوٹ پہنے ہوئے۔
ان میں سے بہت سے لوگ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک چھوٹے سے کمرے میں جمع تھے، اور باقی لوگ جو اندر نہیں داخل ہوسکے باہر ٹھنڈ میں منتظر کھڑے رہے۔
جو لوگ اندر موجود تھے، وہ بمشکل ہی سکون سے کھڑے رہ سکتے تھے، لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے انہیں دھکے لگ رہے تھے، کچھ لوگوں نے دیوار کا سہارا لے لیا تھا۔ لوگوں کی بڑی تعداد اکھٹا ہونے سے یہ چھوٹا سا کمرہ گرم اور مرطوب ہوگیا تھا، جبکہ باہر پھوار پڑ رہی تھی۔
انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے سزا کے فیصلے کے خلاف ممتاز قادری کی طرف سے جمع کرائی گئی ایک درخواست کی سماعت کے دوران پنجاب بار کونسل کے رکن سجاد اکبر عباسی، لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، راولپنڈی کے سابق صدور توفیق آصف اور احسن الدین شیخ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق صدر نصیر کیانی نے شرکت کی۔
یہ سب لوگ ممتاز قادری کے بنیادی وکلاء سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ خواجہ محمد شریف اور ریٹائرڈ جسٹس میاں محمد نذیر احمد کی مدد کے لیے وہاں موجود تھے۔ میاں نذیر نے قادری کے دفاع کے لیے ریٹائرمنٹ لی تھی۔
وہاں پر موجود ایک وکیل نے تبصرہ کیا ’’یہ دونوں وکیلِ صفائی اس مقدمے کے ججوں سے سینئر ہیں۔‘‘
لیکن یہ اپنے ’مذہبی فریضے‘ کی ادائیگی کے لیے یہاں موجود دوسرے لوگوں سے زیادہ سرگرم نظر آئے۔
جب ڈان نے ایک وکیل محمد وقاص ملک سے سوال کیا کہ وہ کیوں اس مقدمے میں ان کے ساتھ منسلک ہیں، تو انہوں نے جواب دیا: ’غازی علم دین، جنہوں نے ایک گستاخِ رسول کو قتل کیا تھا، کی جانب سے قائدِاعظم محمد علی جناح پیش ہوئے تھے۔‘‘
جب ایک دوسرے وکیل نے انہیں یاد دلایا کہ غازی علم دین کو سزا سنائی گئی تھی اور انہیں پھانسی پر لٹکادیا گیا تھا، تو وقاص ملک نے کندھے اچکائے اور کہا ’’اس دوران غیرمسلموں کی حکومت تھی اور جس جج نے سزا سنائی تھی، وہ بھی غیرمسلم تھا۔‘‘
عدالتی کارروائی کے بعد اسی طرح کے خیالات کا اظہار لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس خواجہ محمد شریف نے بھی کیا۔
ایسا لگ رہا تھا کہ عدالت میں بھی اسی طرح کے خیالات غالب تھے۔
پنجاب بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین محمد اظہر چوہدری نے کہا کہ انہوں نے ایک کروڑ روپے واپس کردیے، پچھلی پی پی پی کی حکومت نے انہیں اس کی پیشکش کی تھی، اور انہوں نے 2011ء کے دوران سلمان تاثیر قتل کیس میں سرکاری وکیل بننے سے انکار کردیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایسا اس لیے کیا کہ وہ خود بھی ممتاز قادری کے حامی ہیں۔