Monday, March 21, 2016

ممتاز قادری کو معاف کردیا تھا ۔





انکشاف ہوا ہے کہ ممتاز قادری کو معاف کردیا تھا ۔

جے یوآئی کے سربراہ مولاناسمیع الحق نے انکشاف کیا ہے کہ توہین رسالت قوانین کی خلاف ورزی پر قتل ہونے والے سلمان تاثیر کے اہلخانہ نے ممتاز قادری کو معاف کردیا تھا۔جماعت اسلامی کے ہیڈ کوارٹر منصورہ لاہور میں تحفظ خواتین بل کے حوالے سے منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس کے موقع پر گفتگو میں مولانا سمیع الحق نے کہا کہ سابق گورنر کے اہلخانہ نے ممتاز قادری کو معاف کردیا تھا۔مولانا سمیع الحق نے کہا کہ مقتول کی والدہ اور ان کے خسر ان کے ساتھ گزشتہ برسوں رابطے میں رہے ان دونوں کا یہی موقف تھا کہ ممتاز قادری کو معاف کیا جائے گا جس کے بعد ان کے سارے خاندان نے اس موقف کی تائید کی ۔جے یو آئی (س) کے سربراہ کا کہنا تھا ریمنڈ ڈیوس کی بار شریعت کو جواز بنایا گیا لیکن ممتاز قادری کیس میں شرعی جواز کے باوجود اوپر کے دباﺅ پر پھانسی دی گئی ۔یاد ہے کہ ممتاز قادری کی پھانسی پر عوام کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا تھا

March 21 2016 

Sunday, March 6, 2016

توہین رسالت- پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید

نگلینڈ کے مجموعہ قوانین میں آج بھی بلاسفیمی کا قانون موجود ہے۔جو 1860ہندوستان میں بھی لاگو کر دیاگیا تھا اور94 18میں دفعہ 124-A تعزیرات ہند میں شامل کر دی گئی۔ بعد میں اس قانون میں سیکشن 153-Aبھی شامل کر دیا گیا۔جس کے تحت پہلا مقدمہ ایک ہند وناشر،راج پال کے خلاف رنگیلا رسول نامی توہیں رسالت سے متعلق کتاب کی اشاعت پر قائم کیا گیا۔جس پر اس کو سزا بھی ہوئی ۔مگر ہائی کورٹ نے اس کی سزا معطل کردی۔ جس سے ہندوستان کے مسلمانوں میں اشتعال عروج پر پہنچ گیا ۔محبتِ رسول سے مغلوب ہو کر ایک دلیر مسلمان غازی علم دین شہید نے راج پال کو جہنم رسید کر کے خود بھی انگریز کے ہاتھوں شہادت سے سرفرازہوا۔مسلمانو کے مطالبے پر 1927 کے ترمیمی انڈین ایکٹ میںدفعہ 295-A بھی شامل کر دی گئی جس کے تحت توہین رسالت پر سزا کا قانون موجود تھا۔جب 1956 میں پاکستان کا پہلا آئین بنایا گیا تو اس میں بھی اس شق کو بر قرار رکھا۔پہلے مارشل لاء دور میں جب 1961 ایوب خان نے ترمیمی آرڈیننس جاری تو اس آرڈیننس میں بھی توہین رسالت کی شق کو بر قرار رکھا گیا۔ اس طرح پاکستان کے قوانین میں ہمیشہ کسی نہ کسی شکل میں توہین رسالت کا قانون موجود رہا ہے۔1980 میں ایک ترمیمی آردننس کے ذایعے ایک اور شق 298-A کو بھی شامل کر لیا گیاجس کے تحت تحریر و تقریر ،اشارتاً یا بالواسطہ یا بلا واسطہ طورپر امہات المومنینیا کسی اہلِ بیت یا خلفائے راشدین میں سے ہفتہ 20 نومبر 2010 کو اسلامی جمہوریہ پا کستان کے صدر نے گورنر پنجاب سلمان تاثر جوسابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے چہیتوں میں شمار ہوتے تھے ۔ آج صدر زرداری کے چہیتوں میں نمبر ون ہیں۔کو صدر آصف علی زرداری نے یہ ہدایت کی تھی کی شیخوپورہ جیل میں جا کر سزائے موت پانے ولی عورٹ آسیہ(مسیح)سے ملاقات کر کے اسکی رہائی کے لئے کاغذات تیار کر کے۔اس کا معافی نامہ اور سزا کے خاتمے کی اپیل تیار کروا کے ایوانِ صدر بھجوائیںتاکہ اسکی سزا ختم کی جا سکے ۔ گونر نے اس ضمن میں با قاعدہ پریس کانفرنس کر کے کہا کہ آسیہ کے کیس کا تعلق انسانیت سے ہے۔انہیں عافیہ صدیقی کے کیس کا تعلق انسانیت سے نظر نہیں آیا؟یہ یہودیوں عیسائیو اور ہندووں کے ایجنٹ کب تک اس ملک کی جڑوں کو کھو کھلا کرت رہیں گے؟؟؟ہر مذہب کے علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ توہین رسالت کے قانون میں اگر تبدیلی کی کوشش کی گئی تو ملک خانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا۔
آسیہ( مسیح)ایک باغ میںمسلمان خواتین کیساتھپھلوں کے باغ میں یومیہ اجرت پر کام کرتی تھی مبینہ طور ایک دن مسلمان خواتین کے اس کے ہاتھ سے پانی پینے کے انکار پر ان کے درمیان تکرار ہوئی جس کے دوران مبینہ طور آسیہ (مسیح) نے رسول پاک حضرت محمد کی شان میں گستاخی کی جس پر خواتین میں اشتعال پیدا ہوا اور جھگڑا طول پکڑتا گیا۔نوبت عدالت تک پہنچ گئی جہاں ٹھوس شہادتوں کی بنیاد پر آسیہ (مسیح) مجرم پائی گئی ۔ جس کی بناء پر آسیہ( مسیح)کو عدالت نے سزائے موت کی مجرم قرار دیدیا ۔یہاں قرآن کا ایک حوالہ دے کرہم بات آگے بڑھائیں گے (سورۃ الحجرا ت آیت نمبر95 )میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ (اے پیغمبر)’’آپ کا مذاق اڑانے والوں سے نمٹنے میںمیں(اللہ)خو د ہی کا فی ہو ں ‘‘اس آسیہ مسیح کی پر ہر جانب سے اسلام سے برگشتہ معاشرے کے چہرے کے بد نما داغ مجرمہ کی حمایت میں بیک زبان بو لنے لگے ہیں۔ ا گر انہیں عدالت کے فیصلے سے اختلاف ہے تو یہ عالیٰ عدلیہ میں رجوع کر سکتی ہے۔ در حقیقت ایسے معاشرے کے دھبے امریکہ بر طانیہ میں سیٹل ہونے کے لئے ایسے مذموم ڈرامے رچاتے رہتے ہیں۔قانوں تو ہین رسالت کے خاتمہ کے لئے قادیانی لابی دن رات زور لگا رہی ہے ۔ایک صاحب مسلمان بنکر قرآن و حدیث کی روزانہ کئی کئی میلیں پاکستا ن کے میڈیا پر سنز اور عوام کو خاص طور پربھیج رہے ہیں ۔
کہیں وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں کافر بنانے کی فیکٹریاں کھولی ہوئی ہیں پہلے قادیا نیوں کو کافر قرا ر دیا گیا…. کہیں کہتے ہیں کے اللہ کے رسول نے کبھی اپنے آپ کو برا بھلا کہنے والوں سے بدلہ نہیں لیا۔تو انہیں پتہ ہونا چاہیئے اللہ نے انہیں رحمت اللعا لمین بناکر بھیجا تھا۔مگر رب کائنات نے یہ بھی انتظام کر دیا کہ کوئی اس کے محبوب پیغمبرمحمدمصطفےٰ کی شا ن میں گستاخی کا مرتکب نہ ہونے پائے ۔ ایسے کافروں کے بارے میں(سورہ احزاب آیت نمبر 57 ) میں ارساد باری تعالیٰ ہے کہ ’’بلا شبہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں اُن پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی طرف سے پھٹکار اور اُن کے لئے رسوا کرنے والا عذا ب مہیا کر دیا گیا ہے‘‘ اسی طرح ( سورہ انفال کی آیت نمبر 13)میں حکمِ باری تعالیٰ ہے کہ’’یہ حکمِ قتال اس لئے دیا گیا ہے کہ انہو ں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی اور جو اللہ اور اس کے رسو ل کی مخالفت کرتا ہے تو بلا شبہ اللہ اس کے لئے سخت گیر ہے‘‘
قومی کمیشن برائے ترقی نسواں سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور میں 17 جولائی 2000 کو ایک آرڈیننس کے ذریرے تشکیل دیا گیا تھا۔جس کا مقصدخواتین کی ترقی اور ا ن امتیازی سلوک کے قوانین پر نظر ثانی کرنا بتا یا گیا تھا۔ اس حوالے سے قومی کمیشن برائے ترقی نسواں کی اکٹیوسٹوں نے قانونِ توہین رسالت کوقادیانیت اور عیسائیت کی ترجمانی کرتے ہوے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان اسلام سے برگشتہ امریکی ڈالز پر پلنے والی کمیشن کی ترجمان خواتین کی جانب سے گستاخ اور زبان دراز عیسائی عورت آسیہ (مسیح) کیس میں اپنی مصنوئی تحقیقاتی رپورٹ بھجوائی ہے جو توہینِ عدالت کے زمرے میں اس وجہ سے آتی ہے کہ اگر اس فیصلے پر کسی کو اعتراض تھا تو وہ اپیل میں اعلیٰ عدا لت میں کیوں نہیں کئی۔عیسائی چرچ جہاں اربوں روپیہ مسلمانوں کو بر گشتہ کرنے میں خرچ کر رہا ہے تو اُس نے اپنی ماننے والی کی خبر گیری میں اعلیٰ عدالت سے رجو ع کیوں نہیں کیا؟اس کا مطلب یہ ہے کہ آسیہ (مسیح)مجرمہ ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ آئے دن عیسایت پیغمبرِ اسلام کی مختلف طریقوں سے توہین کرتی نظر آتی ہے۔ کمیشن کے لوگوں کا کہنا ہے کہ آسیہ پر ذاتی دشمنی کی بنا پر الزام لگایا گیا ہے۔بڑ ے افسوس اور شرم کا مقام ہے کیا کبھی ان ڈالرز دہ خواتین نے عافیہ صدیقی کے لئے بھی حقوق نسواں کے حوالے سے آواز ٹھائی؟؟؟ جسکو متعصب عیسائیت نے محض مسلمان اور ذہین وفطین خاتون ہونے جرمِ بے گناہی کی سزا دی ہے۔
سلمان تاثیر جو غیر مسلموں کے تو بہت بڑ ے ہمدرد ہیں کیا کبھی انہوں نے اپنے آقا سے عافیہ صدیقی کے لئے بھی جرمِ بے گناہی کاپر رحم کی اپیل کی؟؟؟یہ مصنوعی چہرے دیکھ دیکھ کر پاکستانی قوم اکتا چکی ہے۔کبھی ترقی نسواں والی بے پردہ اور اسلام سے پریشان خواتین نے بھی عافیہ کے حق میں کوئی ایک جملہ ہی کہا؟؟؟ ایک لعنتی عورت پر ان کی مہربانیوں کی کیا وجہ ہے یہ سارا پاکستان جانتا ہے!!! انہیں یہ جان لینا چاہیئے کہ پاکستان میں عسایت یا قادیانیت کا قانون ہر گز نہیں چلے گا۔ان لوگوں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ تعزیرات پاکستان کے سیکشن-C 295جو جنرل ضیاء الحق شہیدکے دور میں قانون کا حصہ بنا جس کے تحت زبانی یا تحریری یا اشاروں کنایوں یا دکھائی دینے والی اشکال کے ذریعے یا بذریعہ تہمت اور طعن آمیز اشارے کے ذریعے برائے راست یا بلواسطہ آنحضرت کی توہین یا شان میں گستاخی کرے گا اس کی سزاموت عمر قید اور جرمانہ ہے۔
ترقیِ نسواں کے علاوہ مختلف این جی اوز پوپ بینڈک اور درپردہ بعض عیسائی حکومتوں کی طرف سے بھی حکومت پرتوہین رسالت کے قانون میں ترمیم یا س کی منسوخی پر زور دیا جا رہا ہے ۔حقوق نسواں کی چیئرمین انیس ہارون نے گستاخِ رسول آسیہ( مسیح)کیس کے ضمن میں بتایا ہے کہ حقوق نسواں کمیشن کی ایک رکن نے تحقیقات کی ہے جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ آسیہ (مسیح) پر الزام بہ اثر لوگوں کے دباؤ پر لگایا تھا۔جس کاکہنا ہے کہ ہم نے صدر سے اپیل کی ہے کہ آسیہ کو چھوڑ دیا جائے اوراس کو تحفظ فراہم کیا جائے اور تعزیراتِ پاکستان کا سیکشن 295-C ختم کر دیا جائے۔وزارت قانون کے حکام کا کہنا ہے کہ (سلمان تاثیر کے اشارے پر)توہین رسالت کے جرم میں قید عیسائی عورت نے صدر آصف عی زرداری سے رحم کی اپیل کر دی ہے۔اس کی طرف سے معافی نامہ صدر کو بھیجدیا گیا ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس پرجلد دستخط کر دیں گے۔ گونر پنجاب سلمان تاثیر نے یہ بات ڈسٹرکٹ جیل شیخوپورامیں آسیہ (مسیح) سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوے کہی ان کا کہناہے کہ آسیہ مسیح کے معاملے کا تعلق انسانیت سے ہے؟؟؟انسانیت کے اتنے بڑے علم بردار آپ لوگ کب سے بن گئے ہیں؟؟؟عافیہ صدیقی کے معاملے میں آپ لوگوں کی انٹر نیشنل این جی اوز اور امریکہ کی انسانیت سے ہمدردی کی حس کہاں چرنے چلی گئی تھی؟؟؟
تعجب خیز بات یہ ہے کہ جمعہ 26 نومبر 2010 کو اپوزیشن کی 5 جماعتوں پی پی پی،ایم کیو ایم،اے این پی،مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق کے 12 ارکان نے توہینِ رسالت کے قانون کے خاتمے کے لئے قومی اسمبلی میں ایک تحریک جمع کرادی ہے۔جس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کی یہ تمام سیاسی جماعتیں مغرب سے ڈکٹیشن لے رہی ہیں۔اس تحریک میں کہا گیا ہے کہ آسیہ (مسیح) کو توہین رسالت کے الزم میں 8 نومبر 2010 کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا۔بقول محرکین تحریک مسلمان خواتین نیآسیہ (مسیح) پر توہینِ رسالت کا جھوٹا الزام لگاکر مقدمہ درج کرا دیا گیا۔اس تحریک میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ اقلیتوں کے خلاف ناروا سلوک پاکستان کے نظریہ اور قانون کے خلاف ہے۔مزید یہ بھی لکھا گیا ہے کہ توہین رسالت کی آر میں لوگوں سے ایتقام لیا جا رہا ہے۔آسیہ مسیح کا کیس سچ ہو نے کے باوجودان محرکین کو عافیہ صدیقی کی بے گناہی انہیں کبھی کیوں نظر نہ آئی؟ جس پر عیسائی قوتوں نے تعصبات کی بنا پر جھوٹے الزمات لگائے۔اس وقت تعصبات سے پاک ہونے کی لہر ان میں کیوں نہ اٹھی؟اُس وقت ان کا ضمیر کہاں سو رہا تھا؟اس لئے کہ وہ اسلام کی بیٹی تھی جس سے ان کے اَن داتا نفرت کرتے ہیں…. ان ارکان نے مطالبہ کیا ہے کہ قانونِ توہیں رسالت کو ختم یا اس پر نظرِ ثانی کی جائے اور آسیہ( مسیح )کی رحم کی اپیل منظور کی جائے!!!ہم پوچھتے ہیں کہ معزز ارکان نے یہ اپیل اعلیٰ عدلیہ میں کیوں نہ دائر کی؟اس ملک کے قانون کو نا ماننے والوں کی حمایت کرنا بھی میرا خیال ہے مجرمانہ فعل ہے ۔جس کی کسی طرح بھی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔ایسے مجرموں کے تو آپ جیسے بے تحاشہ طاقتور حمائتی موجود ہیں۔
یہ بات ہر با ضمیر شخص کہے گا کہ بے گناہ فرد کو کسی بھی قانوں میں سزا نہیں دی جاسکتی ہے اور اگر کوئی جھوٹا مقدمہ درج کراتا ہے اور وہ عدالت میں ثابت بھی ہو جاتا ہے تو ایسے شخص کو تو سزا سے کوئی بچا ہی نہیں سکتا ہے۔ اگر آسیہ (مسیح) بے گناہ تھی تو اس نے اپنی بے گناہی ثابت کیوں نہیں کی۔اس کا وضح مطلب یہ ہے کہاس کے حمائتی عدالتوں کا بھی مذاق اڑانے پر کمر بستہ ہو چکے ہیں وہ صرف اپنی کسوٹی پر آسیہ(مسیح) کو بے گنا ثابت کروانا چاہتے ہیں اور قانون کی دھجیاں بکھیر نے پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔
یہ بات ان تمام لوگوں کو جان لینی چاہئے کہ پاکستان کا کوئی بھی محب نبی توہین رسالت کے ایکٹ میں تر میم کی اجازت ہر گز ہر گز نہ دے گا۔ اگر اس ایکٹ میں ترمیم کر دی گئی تو آسیہ جیسے بد زبان اور نا معقول لوگوں کے لئے توہین رسا لت کا راستہ ہمیشہ کے لئے کھولدیا جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی مذہبی اور سیاسی جماعتیں عیسایت اور قادیانیت کا یہ ایجنڈا کبھی پورا نہ ہونے دیں گی۔یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان کی سات سیاسی دینی اور جماعتوں کے درمیان آئین میں توہین رسالت ایکٹ میں ترمیم کے خلاف بھر پور مہم چلانے پر اتفاق ہو گیا ہے۔ان جماعتوں کا کہنا ہے کہ توہین رسالت ایکٹ میں ترمیم کی اجازت کسی صورت میں نہیں دی جائے گی۔ق لیگ کے رہنما چوہدری شجاعت حسین،جمیعت العلمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان،جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ اور دیگر دینی جماعتوں کے قائدین سے بھی اس سلسلے میں رابطے کئے جا رہے ہیں۔ان جماعتوں نے آئین کی شق 295-C کو پاکستان کو وجود کی بنیاد قرار دیتے ہوے توہین رسالت کے مرتکب افراد کو پھانسی دینے کی سزا معاف کرنے والوں کے خلاف اسمبلی کے ایوان کے اندر اور باہر بھر پور مذاحمت کرن کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ان جماعتوں کا کہنا ہے کہ توہین رسالت کے مرتکب افراد کی پھانسی کی سزا ختم کرنے کے صدارتی اختیار ات کو ختم کر دیا جائے گا۔

Saturday, March 5, 2016

آسیہ مسیح





ممتاز قادری کی پھانسی کے فوراً بعد نوازشریف کی طرف سے روانہ کیے جانے والے دورکنی
 وفد نے کیتھولک عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس سے ویٹی کن میں ملاقات کی ہے۔ اور اُنہیں وزیراعظم نوازشریف کی طرف سے دورہ پاکستان کی دعوت دی جسے پوپ نے قبول کر لیا ہے۔اطلاعات کے مطابق وفاقی وزیر مذہبی امور سردار یوسف اور وفاقی وزیرپورٹ اینڈ شپنگ کامران مائیکل کی سربراہی میں وفد نے پوپ کو نوازشریف کا ایک خط اور نیک خواہشات کا پیغام پہنچایا۔ نوازشریف نے اپنے خط میں کہا ہے کہ اُن کی حکومت اقلیتوں کی بھرپور مدد کررہی ہے اور پاکستان میں اقلیتوں کی مکمل مذہبی و شخصی آزادی کے لئے کوشاں ہے۔
نوازشریف کی طرف سے مدعو کیے جانے والے پوپ فرانسس کی طرف سے پہلے سے ہی آسیہ مسیح کی سزائے موت کو معاف کیے جانے کی اپیل کی جاچکی ہے اور آسیہ مسیح کو فرانسیسی شہریت دی جا چکی ہے۔
تیزی سے عوام میں غیر مقبول ہونے والی نواز حکومت نے یہ اقدام ایک ایسے وقت میں اُٹھا یا ہے جب ممتا زقادری کی سزائے موت کے بعد پاکستان کی تمام فضا سوگوار ہے۔ اور مذہبی جماعتوں کے درمیان نیے اتحاد کے ساتھ حکومت مخالف جدوجہد کی مشاورت کی جارہی ہے۔ نواز حکومت نے گزشتہ کچھ عرصے سے مسلسل ایسے اقدام اُٹھائے ہیں جو اُنہیں پاکستانی عوام میں غیر مقبول مگر امریکی اور مغربی حلقوں کے لیے پسندیدہ بنانے کا باعث بن رہے ہیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ نواز حکومت نے ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد اب یہ فیصلہ بھی کر لیا ہے کہ توہین رسالت کی مجرمہ آسیہ مسیح کو پھانسی نہیں دی جائے گی اور سپریم کورٹ سے اپیل میں اُس کی سزائے موت کو ختم کرنے کی کوشش ناکام ہوئی تو صدرمملکت ممنون حسین کی طرف سے معافی دیئے جانے پر غور کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ نوازشریف کی طرف سے مدعو کیے جانے والے پوپ فرانسس کی طرف سے پہلے سے ہی آسیہ مسیح کی سزائے موت کو معاف کیے جانے کی اپیل کی جاچکی ہے اور آسیہ مسیح کو فرانسیسی شہریت دی جا چکی ہے۔ جبکہ فرانس میں ہی اُس کی رہائش کا بندوبست بھی کر لیا گیا ہے۔




نوازشریف حکومت نے ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد اب مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس کو پاکستان کے دورے کی دعوت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ انتہائی ذمہ دار ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں ایک دو رکنی وفد پوپ کو دعوت دینے کے لئے ویٹی کن روانہ ہو چکا ہے۔
پوپ کو دعوت دینے کے لئے روانہ ہونے والا وفد وفاقی وزیر برائے مذہبی امور سردار محمد یوسف اور وفاقی وزیربرائے پورٹس اینڈ شپنگ کامران مائیکل پر مشتمل ہے جو پوپ فرانسس کو وزیراعظم نوازشریف کی طرف سے رواں سال کے آخر میں دورہ پاکستان کی دعوت دیں گے۔
پوپ کی آمد کے آس پاس توہین رسالت کے مقدمے میں سزائےموت پانے والی آسیہ مسیح کو بیرون ملک بھیج دیا جائے گا، پوپ آسیہ کی رہائی کا مطالبہ پہلے ہی کر چکے ہیں۔
انتہائی ذمہ دار ذرائع کے مطابق نوازحکومت نے ممتاز قادری کی پھانسی کے ساتھ ہی توہین رسالت کی مجرمہ آسیہ مسیح کی لئے آسانیاں پیدا کرنے کا بھی فیصلہ کر لیا ہے۔ حکومت گزشتہ آٹھ ماہ سے آسیہ مسیح کے معاملے پر کوئی قدم اُٹھانے سے گریز کررہی ہے اور یہ معاملہ سزائے موت سنائے جانے کے بعد سپریم کورٹ میں اپیل میں آٹھ ماہ سے معلق ہے۔ انتہائی ذمہ دار ذرائع کے مطابق پوپ کی آمد سے قبل خاموشی سے آسیہ مسیح کے سلسلے میں عدالتی معاملات کو طے کیا جائے گا اور پوپ کی آمد کے آس پاس توہین رسالت کے مقدمے میں سزائےموت پانے والی آسیہ مسیح کو بیرون ملک بھیج دیا جائے گا۔ یاد رہے کہ آسیہ مسیح کے مسئلے پر ویٹی کن اپنا سرکاری ردِ عمل پہلےسے دے چکاہے اور وہ مسلسل اس معاملے کا تعاقب کررہا ہے۔یہاں تک کہ خود پوپ فرانسس نے پاکستان سےتوہین رسالت کی مجرمہ کی سزائے موت کا مطالبہ کیا تھا۔ اب نواز حکومت اُن ہی پوپ فرانسس کو پاکستان مدعو کرنے کے لیے سرگرم ہے۔جبکہ آسیہ مسیح کے متعلق اطلاعات یہ ہیں کہ اُسے فرانس بھیجا جائے گا جہاں اُس کے لئے پہلے سے انتظامات مکمل کیے جاچکے ہیں۔ دوسری طرف آسیہ مسیح کے شوہر نے صدر مملکت سے معافی کی اپیل بھی کر رکھی ہے۔ممتاز قادری کے مسئلے پر خاموشی سے صدر ممنون حسین نے نوازشریف کو خوش کرنے اور مغربی ممالک میں قبولیت پانے کے اقدام کی حمایت کی ہے۔ مگر اب اُنہیں آسیہ مسیح کے مسئلے پر ایک بھاری پتھر اُٹھانے کا فیصلہ دوبارہ کرنا ہے۔پاکستان کے عوام حکومت کے یہ دل آزار اقدامات انتہائی غم وغصے سے دیکھ رہے ہیں۔

متاز قادری کی پھانسی پر احتجاج کا انداز







Wednesday, March 2, 2016

ممتاز قادری کی پھانسی پر فتاویِ









مل گیا تاج شھادت ممتاز کو
ھے سلام تا قیامت ممتاز کو
نوری چہرےسےھواھےخودعیاں
پنجتن کی ھے حمایت ممتاز کو
آخری کلام میں ھے پڑھا سلام
اھلیبت سے ھےچاھت ممتاز کو
طیب وطاھر کا بھی جانا دیکھو
ھے ملی نوری برسات ممتاز کو
حارث ھے طالب ھرعاشق رسول

مل گئی خوب سعادت ممتاز کو
محمد سلیم شاد




قلم تلوار...قاری نوید مسعود ہاشمی (شمارہ 534)
اچھا ہوا غازی ممتازقادری کو پھانسی دیکر جام شہادت پلا دیاگیا۔۔۔ غازی ممتاز قادری تو پہلے دن سے ہی شہادت کا متلاشی تھا، اس نے تو اپنے وکلاء کو مقدمے کی پیروی سے بھی منع کرنے کی کوشش کی تھی، اس نے اپنے گھر والوں کو بھی کئی بار کہاتھا کہ ’’محبتِ رسولﷺ سے بڑھ کر مجھے زندگی پیاری نہیں ہے، بلکہ میں تو شہادرت کاجام نوش کر کے اس نبی محترمﷺکی محفل میں پہنچنا چاہتا ہوں، جس نبی محتشمﷺ کی عزت و حرمت کی خاطر میں نے ایک گستاخ رسولﷺ کا قتل کیا تھا‘‘۔۔۔
دیوانہ ختم نبوت قاری وحید قاسمی کا منگل کی صبح فون آیا، فون اٹینڈ کیا تو قاری وحید قاسمی نے بڑے جذباتی انداز میں کہا کہ ہاشمی صاحب! مبارک ہو، غازی ممتاز قادری کو پھانسی دیکر کر شہید کر دیا‘‘ خیر مبارک۔۔۔ بے ساختہ میرے منہ سے نکلا، وہ تو سچا عاشق رسول تھا اور غازی علم دین شہید سے لیکر غازی ممتاز قادری شہید تک عشاق رسول کی تاریخ پھانسیوں سے ہی عبارت ہے، اور ویسے بھی ہمارے حکمران’’شریف برادران‘‘ پاکستان کو سیکولر بنانے کے مشن پر نکل کھڑے ہوئے ہیں، سیکولر پاکستان کی ضرورت شرمین عبید، ملالہ یوسفزئی تو ہیں۔۔۔سیکولر پاکستان میں بیویاں اپنے شوہروں کو نہ صرف گھروں سے دھکے دیکر نکال سکیں گی، بلکہ ان کے خلاف مقدمات بھی قائم کرواسکیں گی، سیکولر پاکستان میں مسجدوں کے اسپیکروں پر پابندی ہو گی، مگر رقص و سرود اور ناچ گانے والوں کیلئے پروٹوکول ہوگا، لیکن’’شریف برادران‘‘ کے سیکولر پاکستان میں غازی ممتاز قادری کا زندہ رہنا ناممکن تھا، آسیہ مسیح کہ جس پر توہین رسالت کا ارتکاب ثابت ہوا اور تمام گواہوں اور ثبوتوں کی روشنی میں عدالت نے اسے پھانسی کی سزا دی۔۔۔ مگر وہ چونکہ یورپ اور امریکہ کو پیاری ہے، اس لئے اسے پھانسی نہیں ہو سکتی، پاکستان میں فحاشی و عریانی، بے حیائی، کرپشن، لوٹ مار، اور انتشار پھیلانے والوں کو پھانسی توبہت دور کی بات گرفتار بھی نہیں کیا جا سکتا، سلمان تاثیر نے چونکہ قانون توہین رسالت کا مذاق اڑایا تھا، سلمان تاثیر نے چونکہ ایک گستاخ رسول آسیہ مسیح کے حق میں کمپین چلائی تھی، سلمان تاثیر چونکہ برطانیہ اور یورپی یونین کافرستادہ تھا، اس لئے اس کے قاتل کوتو سزا ملنی ہی چاہئے تھی، پاکستان کو سیکولر بنانے کیلئے شرمین عبید کو ہیرو بنانا اور غازی ممتاز قادری کو پھانسی پر چڑھانا ضروری تھا۔۔۔
غازی ممتاز قادری کا بریلوی مسلک سے تعلق تھا، اور وہ اپنے ہی مسلک کے ایک خطیب کی تقریر سے متاثر تھے، مگر میں بڑی معذرت کے ساتھ یہ بات لکھنے پر مجبور ہوں کہ آپس کی نا اتفاقیوں اور فرقہ وارانہ دوریوں کی وجہ سے علمائ، غازی ممتاز قادری کیلئے کوئی مؤثر کمپیئن نہ چلا سکے، پورا پاکستان اس بات کا گواہ ہے کہ گزشتہ سال ایک اینکرنی شائشہ واحدی، وینا ملک اور ایک اخباری گروپ کے سربراہ کے خلاف ملک بھر میں توہین اہل بیتؓ کے سینکڑوں مقدمات درج ہوئے۔۔۔ پورے ملک میں اہل بیت اطہار کی گستاخی اور توہین کی وجہ سے ان کیخلاف جلوس نکلے، مگر سینکڑوں مقدمات درج ہونے کے باوجود ان میں سے کسی ایک کو بھی گرفتار نہ کیا گیا۔۔۔
بلکہ وہ میڈیا گروپ نواز حکومت کی گڈ بک میں ہے۔۔۔ وزیراعظم ہاؤس میں محترمہ مریم نواز کی زیر قیادت بننے والے میڈیا سیل کا اگر کوئی ترجمان اس بات کا جواب دے سکتا ہے تو ضرور دے کہ میر شکیل الرحمن، وینا ملک اور ایک اینکرنی کے خلاف توہین اہل بیتؓ کے الزامات کے تحت درج ہونے والے سینکڑوں مقدمات کا کیا بنا؟ انہیں گرفتار کیوں نہ کیا گیا؟ گستاخ رسول آسیہ مسیح کو اب تک پھانسی کیوں نہ دی گئی؟ افسوس تو ان مولویوں جو فروعی مسائل پر جنگ و جدل میں مشغول رہتے ہیں۔۔۔ اور امریکہ نے ان کی فرقہ وارانہ کشیدگی والے مائینڈ سیٹ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پوری قوم پر ’’سیکولر لادینیت‘‘ کا جن مسلط کرنے کا فیصلہ کر لیا۔۔۔
ہم بھی کیا لوگ ہیں، اگر کوئی رائے ونڈ تبلیغی جماعت کے اجتماع میں دعا کیلئے یا داتادربار پر چادر چڑھانے کیلئے چلا جائے تو ہم اسے اسلام کا سچا خادم سمجھ کر اس کے دیوانے ہو جاتے ہیں، جب تک بریلوی، دیوبندی اور دیگر مسالک کے علماء کرام آپس کی نفرتوں اور کدورتوں کو ختم کر کے۔۔۔ پاکستان میں نفاذ اسلام کیلئے ایک پر امن اورجاندار تحریک شروع نہیں کرتے اس وقت تک عشاق رسول کو پھانسیاں ہوتی رہیں گی، کیا بریلوی، دیوبندی، اہلحدیث علماء دیکھ نہیں رہے کہ حکمران پاکستان کو زبردستی سیکولر بنانے پر تل چکے ہیں؟ اگر دیکھ رہے ہیں تو انہیں انتظار کس بات کا ہے؟ آپس کی نفرتیں ختم کر کے اسلام کے نفاذ کے مشن کیلئے اتفاق و اتحاد کے ساتھ تحریک شروع کیوں نہیں کرتے؟ اگر دجالی میڈیا اور حکومتی ڈنڈے کے زور پر سیکولر لادینیت کو مسلط کرنا دہشت گردی نہیں ہے؟ تو پر امن طور پر لاکھوں کی تعداد میں نفاذ اسلام کی حمایت میںلوگوں کو سڑکوںپر نکالنا دہشت گردی یا جرم کیسے ہو گیا؟
میری بدنصیبی کہ میں کراچی میں ہونے کی وجہ سے شہید غازی ممتاز قادری کا جنازہ پڑھنے سے محروم رہ گیا، ورنہ اگر میں راولپنڈی میں ہوتا تو اس نیت سے کہ ممکن ہے شہید کے جنارے میں شرکت کی بدولت مجھ گنہگار کی بھی بخشش ہو جاتی اس کے جنارے میں ضرور شریک ہوتا۔۔۔
’’خدا رحمت کندایں عاشقان پاک طینت را‘‘



ام شہریوں نے پٹرول قیمتوں میں کمی کا لولی پاپ مسترد کر دیا. ممتاز قادری کی پھانسی ک تلخی کم نہ ہو سکی.اٹک کی فضا سوگوار رہی ملک بھر کی طرح اٹک اور حضرو میں عاشق رسول ﷺ ممتاز قادری شہید کو پھانسی دینے کے خلاف احتجاجی ریلی و سخت مظاہرہ ، ممتاز قادری کے حق میں جبکہ حکومت کے خلاف گو نواز گو ، صدر ممنون مردہ باد، حکمران مردہ باد اور نفرت انگیز نعرے بازی، علماء کرام کی آئندہ کبھی مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی کو ووٹ نہ دینے کی قسم ، آئندہ نون لیگی امیدوار کے بائیکاٹ کا اعلان، حقوق نسواں بل شریعت سے بغاوت ہے، پاکستان آزاد ہو کر بھی انگریز کے قانون پر چل رہا ہے، حکمران انگریز کی غلامی ترک کر یں ورنہ نتائج کیلئے تیار رہیں، ملعونہ آسیہ مسیح اور تمام گستاخان رسول کو بھی فی الفور پھانسی دی جائے، اداکاروں کو ایوارڈز جبکہ عاشقان رسول ﷺ کو سزائے موت دی جا رہی ہے ، احتجاجی مظاہرہ سے مناظر اہلسنت مفتی قاری اظہر محمود اظہری ، سرپرست اعلیٰ مرکزی میلاد کمیٹی علامہ حافظ اکرام الحق ، علامہ ناصر خان و دیگر مقررین کا خطاب ، تفصیلات کے مطابق ملک بھر کی طرح حضرو میں بھی عاشق رسول ﷺ ممتاز قادری شہید کو پھانسی دینے کے خلاف ریلی نکالی اور شدید احتجاج کیا ، ممتاز علماء کرام مفتی علامہ قاری اظہر محمود اظہری، علامہ حافظ اکرام الحق ، مفتی علامہ محمد صدیق، علامہ ناصر خان ، صدر سنی تحریک تحصیل حضرو حافظ لیاقت علی شاہ ، صدر مرکزی میلاد کمیٹی وقار خان ، صحافی نثار علی خان، رہنما جے یو پی حاجی عارف حسین، حاجی شفیق آرائیں، مولانا قمر اسلام، مفتی زاہد الحسن، ماسٹر علی اصغر ، وائس چیئرمین یو سی خگوانی ملک آفتاب ، جے یو آئی (ف) یو سی ہارون کے رہنما واجد علی ، ڈاکٹر نعیم اعوان اوردیگر نے قیادت و شرکت کی بعد ازاں فوارہ چوک میں بھر پور احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں وزیر اعظم میاں نواز شریف، وزیر اعلیٰ شہباز شریف، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سمیت حکمرانوں پر کڑی تنقید کی گئی اس موقع پر مناظر اہلسنت قاری اظہر محمود اظہری ، علامہ حافظ اکرام الحق ، علامہ ناصر خان ،لیاقت علی شاہ، حاجی عارف حسین اور تمام علماء کرام نے اپنے اپنے خطاب میں شہید ممتاز قادری کے اقدام پر انہیں خراج عقیدت پیش کیا جبکہ حکمرانوں اور پی پی پی کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہوئے آئندہ کبھی مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی کو ووٹ نہ دسینے کا حلف دیتے ہوئے شرکاء سے وعدہ لیا اور اعلان کیا کہ نون لیگی امیدوار کے مقابلے میں کتے کو ووٹ د یں گے، مقررین نے کہا کہ پاکستان آزاد ہو کر بھی انگریز کے قانون پر چل رہا ہے، حکمران انگریز کی غلامی ترک کر یں ورنہ نتائج کیلئے تیار رہیں اس موقع پر شرکاء نے گو نواز گو ، انگریز کا جو یار ہے وہ غدار ہے غدار ہے اور سخت نعرے بازی کی



گستاخِ رسول

کا ماورائے عدالت قتل

آسیہ ملعونہ کے اعترافِ جرم کے بعداس کو نبی پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کی گستاخی پر عدالتِ عالیہ نے پھانسی کی سزا سنائی.

لیکن پھر اس وقت کے گورنرسلمان تاثیر نے اس ملعونہ کی حمایت کی اور گستاخِ رسول کےقتل کی سزا کے قانون کو غیر اسلامی و غیرانسانی کہا. ملعونہ کی سزا معاف کرانے کا وعدہ کیا اور توھینِ رسالت کے قانون کو بدلنے کی بات کرنا شروع کر دی.

ماورائے عدالت معافی دینا چاھتا تھا ملعونہ کو

گورنر تھا سلمان تاثیر تو کسی نے اس کے خلاف ایکشن لینے کی نہ ھمت کی اور جوغریب گیا اس کے خلاف تو الٹا اسے ڈرا کے بھگا دیا اور کوئی پرچہ نہیں کاٹا گیا.

غازی ممتاز قادری نے سلمان تاثیر کو ماورائے عدالت قتل کر دیا جو ایک گستاخ کی ماورائے عدالت معافی کا منصوبہ بنا رھا تھا

اب ھماری قابلِ عزت عدالت نے سلمان تاثیر قتل کیس کے مقدمے کے فیصلے میں غازی صاحب کو پھانسی سنا دی ھے

لیکن گستاخِ رسول کے ماورائے عدالت قتل پر اسلام میں کوئی سزا نہیں

1⃣ حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ھے کہ حضور پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا

کعب کو کون قتل کرے گا یہ اللہ و رسول کو ایذا دیتا ھے

تو صحابہ نے اسے قتل کردیا

📕 (صحیح بخاری,
حدیث نمبر3031)

2⃣ حضور پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم نے انصار کی ایک جماعت کو بجھیجا کہ ابورافع کو قتل کرے تو عبداللہ بن عتیک نے اسے سوتے ھوئے قتل کیا

📕 (صحیح بخاری,
حدیث نمبر3022)

3⃣ فتح مکہ کے دن ایک صحابی نے آکر حضور پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کو بتایا کہ ابنِ خطل کعبہ کے ساتھ چمٹا ھوا ھے اور چھپا ھوا ھے تو حکم ارشاد فرمایا

اسے قتل کر دو

📕 (صحیح بخاری,
حدیث نمبر3044)

4⃣ ایک ملعون حضور پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کو گالیاں بکتا تھا تو آپ علیہ الصلوۃوالسلام نے پوچھا

کون اسے قتل کرے گا

حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ ذمہ داری قبول کی اور اسے قتل کردیا

📕 (الشفاء,
جلدنمبر1,
صفح نمبر62)

5⃣ ایک عورت حضور پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کی بےادبی کیا کرتی تھی تو ایک صحابی نے اس کا گلا گھونٹ کر اسے مار دیا تو حضور پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم نے اس عورت کا خون رائیگاں جانے دیا اور قاتل کو سزا نہیں دی

📕 (سنن ابو داؤد,
حدیث نمبر4362)

6⃣ ایک صحابی نے عرض کی کہ میرا باپ آپ کی شان میں گستاخی کرتا تھا تو میں نے اسے مار دیا تو حضور پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کو اس کے قتل کا کوئی دکھ نہ ھوا

📕 (الشفاء,
جلدنمبر2,
صفح نمبر195)

7⃣ ایک نابینا صحابی کی ایک لونڈی حضور پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتی تھی تو ان نابینا صحابی نے اسے قتل کردیا اورآ کر حضور پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کو بتایا تو آپ علیہ الصلوۃوالسلام نے اس کا خون رائیگاں جانے اور کوئی سزا نہیں دی

📕 (سنن ابو داؤد,
حدیث نمبر4341)

8⃣ خلافتِ صدیقِ اکبر میں ایک عورت نے حضور پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کی گستاخی میں گانا گایا تو مہاجر بن امیہ نے اس کے دونوں ہاتھ اور زبان کاٹ دی. جب اس کی خبر حضرت صدیقِ اکبر جناب ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ھوئی تو آپ نے فرمایا اگر تم نے یہ نہ کیا ھوتا تو میں اسے قتل کروا دیتا کہ انبیاء کی گستاخ کی سزا عام سزاؤں کی طرح نہیں ھوتی

📕 (الشفاء,
جلدنمبر2,
صفح نمبر196)

يہ سب لوگ جن کو صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم نے قتل کیا گستاخ رسول تہے تو قتل کرنے والا صحابہ کرام کو تو کسی نے ہاتھ بھی نہیں لگایا.





پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ اور معروف مذہبی سکالر ڈاکٹر طاہر القادری نے ممتاز قادری کی پھانسی کی حمایت کر دی ہے۔ تفصیلات کے مطابق طاہرالقادری کا کہناتھا کہ اگر سلمان تاثیر کی جانب سے کچھ غلط کہہ دیا جانا ثابت ہو جاتا تو اس صورت میں کسی کو بھی قانون اپنے ہاتھ میں لے کر کسی کو قتل کرنے کا اختیار اسلام دیتاہے نہ ہی پاکستان کا قانون اور آئین ،ممتاز قادری نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر سابق گورنر پنجاب کا قتل کیا لہذا اس صورت میں وہ ایک قاتل ہے اور پھانسی کی سزا بالکل درست ہے ۔
سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے جرم میں ممتاز قادری کو گزشتہ روز اڈیالہ جیل راولپنڈی میں پھانسی دے دی گئی تھی۔ اس حوالے سے ڈاکٹر طاہر القادری نے ممتاز قادری کی پھانسی کی سزا کی حمایت کی ہے۔




نوازشریف حکومت نے ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد اب مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس کو پاکستان کے دورے کی دعوت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ انتہائی ذمہ دار ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں ایک دو رکنی وفد پوپ کو دعوت دینے کے لئے ویٹی کن روانہ ہو چکا ہے۔
پوپ کو دعوت دینے کے لئے روانہ ہونے والا وفد وفاقی وزیر برائے مذہبی امور سردار محمد یوسف اور وفاقی وزیربرائے پورٹس اینڈ شپنگ کامران مائیکل پر مشتمل ہے جو پوپ فرانسس کو وزیراعظم نوازشریف کی طرف سے رواں سال کے آخر میں دورہ پاکستان کی دعوت دیں گے۔
پوپ کی آمد کے آس پاس توہین رسالت کے مقدمے میں سزائےموت پانے والی آسیہ مسیح کو بیرون ملک بھیج دیا جائے گا، پوپ آسیہ کی رہائی کا مطالبہ پہلے ہی کر چکے ہیں۔
انتہائی ذمہ دار ذرائع کے مطابق نوازحکومت نے ممتاز قادری کی پھانسی کے ساتھ ہی توہین رسالت کی مجرمہ آسیہ مسیح کی لئے آسانیاں پیدا کرنے کا بھی فیصلہ کر لیا ہے۔ حکومت گزشتہ آٹھ ماہ سے آسیہ مسیح کے معاملے پر کوئی قدم اُٹھانے سے گریز کررہی ہے اور یہ معاملہ سزائے موت سنائے جانے کے بعد سپریم کورٹ میں اپیل میں آٹھ ماہ سے معلق ہے۔ انتہائی ذمہ دار ذرائع کے مطابق پوپ کی آمد سے قبل خاموشی سے آسیہ مسیح کے سلسلے میں عدالتی معاملات کو طے کیا جائے گا اور پوپ کی آمد کے آس پاس توہین رسالت کے مقدمے میں سزائےموت پانے والی آسیہ مسیح کو بیرون ملک بھیج دیا جائے گا۔ یاد رہے کہ آسیہ مسیح کے مسئلے پر ویٹی کن اپنا سرکاری ردِ عمل پہلےسے دے چکاہے اور وہ مسلسل اس معاملے کا تعاقب کررہا ہے۔یہاں تک کہ خود پوپ فرانسس نے پاکستان سےتوہین رسالت کی مجرمہ کی سزائے موت کا مطالبہ کیا تھا۔ اب نواز حکومت اُن ہی پوپ فرانسس کو پاکستان مدعو کرنے کے لیے سرگرم ہے۔جبکہ آسیہ مسیح کے متعلق اطلاعات یہ ہیں کہ اُسے فرانس بھیجا جائے گا جہاں اُس کے لئے پہلے سے انتظامات مکمل کیے جاچکے ہیں۔ دوسری طرف آسیہ مسیح کے شوہر نے صدر مملکت سے معافی کی اپیل بھی کر رکھی ہے۔ممتاز قادری کے مسئلے پر خاموشی سے صدر ممنون حسین نے نوازشریف کو خوش کرنے اور مغربی ممالک میں قبولیت پانے کے اقدام کی حمایت کی ہے۔ مگر اب اُنہیں آسیہ مسیح کے مسئلے پر ایک بھاری پتھر اُٹھانے کا فیصلہ دوبارہ کرنا ہے۔پاکستان کے عوام حکومت کے یہ دل آزار اقدامات انتہائی غم وغصے سے دیکھ رہے ہیں۔




جسٹس کھوسہ کے ریمارکس








جسٹس کھوسہ نے ریمارکس دیئے تھے کہ توہین کے قانون پر تنقید کرنا توہین رسالت کے ذمرے میں نہیں آتا اس لیے دیکھنا یہ ہے کہ مقتول سلمان تاثیر توہین رسالت کے مرتکب ہوئے بھی تھے یا نہیں۔

جسٹس نذیر اخترکےدلائل

ممتاز قادری کے وکیل اور ریٹائر جسٹس نذیر اختر نے منگل کو بینچ کے سامنے دلائل دیتے ہوئے اس مقدمے کو قتل کے دوسرے مقدموں سے مختلف قرار دیا اور کہا کوئی بھی شخص، خواہ اس کی نیت کچھ بھی ہو، محض توہین آمیز الفاظ ادا کر دینے سے ہی مجرم ٹھہر جاتا ہے۔
اس پر جسٹس کھوسہ سے استفسار کیا کہ آیا کوئی فرد یہ فیصلہ کرنے کا حق رکھتا ہے کس نے توہین مذہب کیا؟
بینچ کا کہنا تھا ’کیا ممتاز قادری کے پاس سابق گورنر سلمان تاثیر کو قتل کرنے سے پہلے کوئی ثبوت موجود تھا؟‘
بینچ نے ممتاز قادری کے وکیل سے کہا کہ وہ کل تک اپنے دلائل مکمل کر لیں، جس کے بعد سماعت ملتوی کر دی گئی تھی۔

دہشت گردی کی دفعات




بدھ کے روز جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے ممتاز قادری
کے وکیل کی درخواست پر سماعت کی۔
سپریم کورٹ نے ممتاز قادری پر دہشت گردی کی دفعات بھی بحال کردیں جنہیں اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں ختم کردیا تھا۔

قانونی راستہ

اسلام آباد: سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کی حمایت میں عدالت میں اکھٹا ہونے والے وکلاء  کا خیال ہے کہ اس مجرم کا دفاع کرنا ان کی ’مذہبی ذمہ داری‘ ہے۔
منگل کی خنک صبح وہ یہاں پہنچے۔ ان میں ہر عمر، رنگ و خدوخال کے لوگ تھے، دبلے بھی موٹے بھی، درمیانی عمر کے بھی، بوڑھے بھی اور نوجوان بھی۔ روایتی داڑھی کے ساتھ خم دار جُبّے میں ملبوس یا کلین شیو خوبصورت گرم کوٹ پہنے ہوئے۔
ان میں سے بہت سے لوگ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک چھوٹے سے کمرے میں جمع تھے، اور باقی لوگ جو اندر نہیں داخل ہوسکے باہر ٹھنڈ میں منتظر کھڑے رہے۔
جو لوگ اندر موجود تھے، وہ بمشکل ہی سکون سے کھڑے رہ سکتے تھے، لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے انہیں دھکے لگ رہے تھے، کچھ لوگوں نے دیوار کا سہارا لے لیا تھا۔ لوگوں کی بڑی تعداد اکھٹا ہونے سے یہ چھوٹا سا کمرہ گرم اور مرطوب ہوگیا تھا، جبکہ باہر پھوار پڑ رہی تھی۔
انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے سزا کے فیصلے کے خلاف ممتاز قادری کی طرف سے جمع کرائی گئی ایک درخواست کی سماعت کے دوران پنجاب بار کونسل کے رکن سجاد اکبر عباسی، لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، راولپنڈی کے سابق صدور توفیق آصف اور احسن الدین شیخ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق صدر نصیر کیانی نے شرکت کی۔
یہ سب لوگ ممتاز قادری کے بنیادی وکلاء سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ خواجہ محمد شریف اور ریٹائرڈ جسٹس میاں محمد نذیر احمد کی مدد کے لیے وہاں موجود تھے۔ میاں نذیر نے قادری کے دفاع کے لیے ریٹائرمنٹ لی تھی۔
وہاں پر موجود ایک وکیل نے تبصرہ کیا ’’یہ دونوں وکیلِ صفائی اس مقدمے کے ججوں سے سینئر ہیں۔‘‘
لیکن یہ اپنے ’مذہبی فریضے‘ کی ادائیگی کے لیے یہاں موجود دوسرے لوگوں سے زیادہ سرگرم نظر آئے۔
جب ڈان نے ایک وکیل محمد وقاص ملک سے سوال کیا کہ وہ کیوں اس مقدمے میں ان کے ساتھ منسلک ہیں، تو انہوں نے جواب دیا: ’غازی علم دین، جنہوں نے ایک گستاخِ رسول کو قتل کیا تھا، کی جانب سے قائدِاعظم محمد علی جناح پیش ہوئے تھے۔‘‘
جب ایک دوسرے وکیل نے انہیں یاد دلایا کہ غازی علم دین کو سزا سنائی گئی تھی اور انہیں پھانسی پر لٹکادیا گیا تھا، تو وقاص ملک نے کندھے اچکائے اور کہا ’’اس دوران غیرمسلموں کی حکومت تھی اور جس جج نے سزا سنائی تھی، وہ بھی غیرمسلم تھا۔‘‘
عدالتی کارروائی کے بعد اسی طرح کے خیالات کا اظہار لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس خواجہ محمد شریف نے بھی کیا۔
ایسا لگ رہا تھا کہ عدالت میں بھی اسی طرح کے خیالات غالب تھے۔
پنجاب بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین محمد اظہر چوہدری نے کہا کہ انہوں نے ایک کروڑ روپے واپس کردیے، پچھلی پی پی پی کی حکومت نے انہیں اس کی پیشکش کی تھی، اور انہوں نے 2011ء کے دوران سلمان تاثیر قتل کیس میں سرکاری وکیل بننے سے انکار کردیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایسا اس لیے کیا کہ وہ خود بھی ممتاز قادری کے حامی ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ایک سینئر عہدیدار نے آہستگی اور سرگوشی میں کہا ’’اس مقدمے کے سرکاری وکیل کو خصوصی طور پر یقین دلایا گیا ہے کہ اگر وہ ممتاز قادری کی اپیل خارج کروانے میں کامیاب ہوگیا تو اس کو امریکا کا ویزہ دیا جائے گا۔‘‘
انہوں نے کہا ’’اس مقدمے کے بعد سرکاری وکیل کے لیے اس ملک میں زندہ رہنا مشکل ہوجائے گا۔‘‘
جیسا کہ دیگر لوگوں کا کہنا تھا کہ جس جج نے ممتاز قادری کو مجرم قرار دیا تھا، وہ پہلے ملک چھوڑ کر چلا گیا تھا، باوجود اس حقیقت کے کہ جس پر کچھ لوگوں نے اصرار کیا کہ وہ اب بھی ملک میں موجود ہے۔
لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی کے سابق صدر احسن الدین جو عمران خان کے خلاف ہتک عزت پر بیس ارب روپے کے دعوے کے مقدمے میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی نمائندگی کررہے ہیں، کہتے ہیں: ’’ممتاز قادری کو حق ہے کہ وہ اپنی مرضی کا وکیل اس مقدمے میں شامل کریں۔ میں اس مقدمے میں خواجہ شریف کی معاونت کررہا ہوں۔‘‘
ایڈوکیٹ احسن الدین شیخ عدالتی کارروائی کے خاتمے تک کمرہ عدالت میں موجود رہے، اور اس وقت تک وہاں سے نہیں گئے، جب تک کہ خواجہ شریف نے انہیں اس کی اجازت نہیں دی۔
اسلام آباد کے ایک نوجوان وکیل نے دعویٰ کیا کہ 33 وکلاء ممتاز قادری کی نمائندگی کررہے ہیں، اور دیگر بڑی تعداد میں ان کی حمایت میں کھڑے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ 27 جنوری کو اس مقدمے کی پہلی سماعت کے موقع پر کم از کم 90 وکلاء نے عدالتی کارروائی میں شرکت کی تھی جبکہ اس وقت یہ تعداد کم تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں تعینات ایک سیکورٹی اہلکار نے بتایا کہ ممتاز قادری کے وکلاء کی تعداد تین درجن سے زیادہ نہیں تھی۔
تاہم ستائیس جنوری کے مقابلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی عمارت کے باہر ممتاز قادری کے حمایتیوں کی تعداد دوگنا تھی۔ کارروائی شروع ہوئی تو یہ لوگ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے ملحقہ سروس روڈ پر اکھٹا ہوگئے تھے۔ انہوں نے پاکستان سنی تحریک (پی ایس ٹی) کے پرچم اُٹھا رکھے تھے، وہ کارروائی ختم ہونے تک وہاں موجود رہے۔
ممتاز قادری کے بھائی ملک محمد سفیر بھی ان لوگوں کے ساتھ موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے بھائی نے کچھ بھی غلط نہیں کیا۔ ’’وہ جیل میں مطمئن ہیں اور ہمیں ملاقات کے لیے آنے سے منع کردیا ہے۔‘‘
اس سے قبل ایک نوجوان وکیل نے کمرہ عدالت میں کہا تھا ’’ہم نے قانونی راستہ اختیار کرتے ہوئے عدالت سے رجوع کیا ہے۔ ورنہ آپ دیکھیے کہ بنّوں میں کیا ہوا تھا۔ لوگوں نے جیل توڑ کر قیدیوں کو آزاد کروالیا تھ

ممتاز قادری کے والد اور بیٹے کی تصویر

ممتاز قادری کے والد اور بیٹے کی تصویر











مرقد

مرقد بمقام بارہ کہو، اسلام اباد



نماز جنازہ



نماز جنازہ 3.45   بجے لیاقت باغ میں ادا کی گئی جس میں ایک اندازے کے مطابق 60 لاکھ افراد نے شرکت کی
























پھانسی



ممتاز قادری کو 29 فروری 2016ء کو اڈیالہ جیل میں پھانسی دی گئی۔جیل حکام کے مطابق ممتاز قادری کو اتوار اور پیر کی درمیانی رات پھانسی دی گئی۔پھانسی کے وقت اڈیالہ جیل جانے والے راستے کو سیل کر دیا گیا تھا اور ان کی لاش قانونی کارروائی پوری کرنے کے بعد اہلِ خانہ کے حوالے کر دی گئی ہے۔ممتاز قادری کو پھانسی دیے جانے کا معاملہ انتہائی خفیہ رکھا گیا اور اس بارے میں پنجاب کے محکمہ جیل خانہ جات کے چند افسران ہی باخبر تھے۔ پھانسی دینے والے شخص کو خصوصی گاڑی کے ذریعے اتوار کی شب لاہور سے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل پہنچایا گیا جبکہ عموماً پھانسی دینے والے جلاد کو دو دن پہلے آگاہ کیا جاتا ہے کہ اسے کس جیل میں قیدیوں کو تختہ دار پر لٹکانا ہے۔ پھانسی گھاٹ میں موجود لو گوں کا کہنا ہے کہ ممتاز قادری پھانسی کے وقت حالت روزہ میں تھا اور تختہ دار پر لٹکتے ہوئے اس کی زبان پر درود سلام جاری تھا۔

ممتاز قادری نے اپنی پھانسی سے قبل گھر والوں کو رونے سے منع کردیا اور کہا کہ مجھے کوئی ملال نہیں، میں اپنی جان اپنے نبی پاک کے نام اقدس پر قربان کرنے جارہا ہوں۔ ممتاز 
قادری نے کہاکہ میرے پیچھے سے کسی نے رونا نہیں، فقط درود و سلام پڑھنا ہے۔






 مرنے کے بعد نبی اکرمؐ سے روزے کی حالت میں ملنا چاہتا ہوں۔یہ تھے ممتاز قادر ی کے وہ الفاان کے والد کے مطابق ،ممتاز قادری نے اپنی گھر والوں سے اپنی آخری ملاقات میں کہے۔ ممتاز کے قادری کے وا لد کے مطابق انہوں نے آخری ملاقات میں خصوصی طور پر کھجور اور آب زم زم منگوایا اور ہم سب کو اپنے ہاتھ سے مٹی کے برتن میں آب زم زم کے ساتھ کھجور کھانے کو دی ۔ پھانسی گھاٹ پر جا تے وقت ممتاز قادری کے آخری الفاظ ، ” اللہ اکبر اور یارسولؐ اللہ “ تھے۔‎

Tuesday, March 1, 2016

سلمان تاثیر





نئی دہلی (ثناءنیوز )گورنرپنجاب سلمان تاثیر کے بھارتی سکھ خاتون صحافی تلوین سنگھ کے بطن سے پیداہونے والے بیٹے آتش تاثیر نے کہاہے کہ اگرچہ میں گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا بیٹا ہوں تاہم میں نظریہ پاکستان کو تسلیم نہیں کرتا، یہ ایک غلط نظریہ تھا ،اس نظریے نے سندھ اور پنجاب کے خاندانوں کو تقسیم کر دیا ،پاکستانیو ںکی سوچ ان مقاصد سے مختلف تھی جن کے لیے پاکستان حاصل کیاگیا تھا۔انہوں نے کہاکہ لاہور میں رہنے والے میرے والد ، ان کی بیوی ، میرے بھائی اور بہن نے میرے لیے اپنے دروازے بند کر رکھے ہیں، مجھے امید ہے کہ میرے والد کو ایک دن صورتحال کا احساس ہو جائے گا، وہ اسلام کے بارے میں میری تحریروں پر برہم ہیں تاہم میں نے اپنی کتاب میں بتانے کی کوشش کی ہے کہ میرے والد کیسے مسلمان ہیں ۔۔۔۔آتش تاثیر کی کتاب ” تاریخ کا اجنبی ، ایک بیٹے کا اسلامی سرزمین کا سفر “ بھارت میں شائع ہو گئی ہے۔ آتش تاثیر کا انٹرویو بدھ کے روز بھارتی جریدے ” آوٹ لک “ میں شائع ہوا ۔ انہوں نے کہا ہے کہ سلمان تاثیر سے میری آخری بار ملاقات بے نظیر کے قتل کے بعد لاہور میں ہوئی تھی میں اپنی والدہ کے ساتھ بھارت میں بڑا ہوا، برطانیہ میں مقیم رہا ۔یہ کتاب میری ذاتی زندگی کے بارے میں افسانوی طرز کی کہانی مبنی ہی، میری پیدائش بھارتی صحافی تلوین سنگھ اور سلمان تاثیر کے درمیان ایک ” مختصر مگر بھرپور تعلق “کے نتیجے میں ہوئی ، میں اپنے لیے راستہ بنانے کی کوشش کر رہا تھا تاکہ میں کل وقتی صحافی بن سکوں، ٹائم میگزین میں کام کرتے ہوئے میں شدید اضطراب کی کیفیت کا شکار تھا، رپورٹر کے طور پر میری نوکری تقریباً کلرکوں کی طرح کی تھی ،میں چاہتا تھا کہ اس سے باہر نکلوں، ٹائم میگزین نے ایک ایڈیشن ” اسلام کی روح “ کے نام سے شائع کیا اور میں نے اس کے لیے برطانیہ کے شمالی حصے میں رپورٹنگ کی ،میں نے ایک مسلمان انتہا پسند حسن بٹ کا انٹرویو کیا تھا، ٹائم میگزین نے اسے بائی لائن شائع کیا، یہ انٹرویو ایک سال بعد ” پراسپکٹس میگزین “ میں بھی شائع ہوا، اس تحریر کے جواب میں میرے والد نے مجھے جوابی خط میں زبردست ڈانٹ پلائی ،ان کا موقف تھا کہ میں نے اسلام کو بدنام کیا، والد کے اس رویے سے مجھے سخت صدمہ پہنچا اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ میرے والد کیسے مسلمان ہیں؟ وہ ایک مسلمان کی طرح کیسے کام کرتے ہیں؟ ان کی شخصیت میں مذہب کا اثر کس طرح کاہی؟آتش تاثیر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جو شخص مجھ سے کہہ رہا ہے کہ میں اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کر رہا ہوں وہ خود کیسا مسلمان ہے جو ہر شام ”اسکاچ “پیتا ہے ، روزے رکھتا ہے اور نہ نماز پڑھتا ہی،عورتوں کا رسیا ہے حتیٰ کہ سور کا گوشت تک کھاتا ہے ، میرے خیال میں وہ حقیقی مسلمان نہیں ہیں ۔آتش تاثیر نے کہاکہ پاکستانیو ںکی سوچ ان مقاصد سے مختلف تھی جن کے لیے پاکستان حاصل کیاگیا تھا،میں ایک طرف بھارتی ہوں دوسری طرف پاکستان کے ساتھ گہری وابستگی ہی، یہ فاصلے اور اجنبیت محسوس کرتا ہوں دونوں ملکوں کو ساتھ لے کر چلنا خطرناک اور مشکل ہی،میری کتاب کا کوئی حصہ پاکستان کے خلاف ہے توایسا نہیں ہے ۔انہوں نے کہاکہ سلمان تاثیر ایک کاروباری شخص ہیں، اپنی تیسری خوبصورت بیوی اور6 بچوں کے ساتھ خوش ہیں ،ایک ایسا شخص جو بے نام تھا اچھا کاروباری تھا اسے گورنر پنجاب نہیں بننا چاہیے تھا۔ آتش تاثیر نے برطانیہ میں قیام کے دوران لیڈی ڈیانا کے خاندان سے تعلق رکھنے والی شہزادی گبریلا ونڈسر سے منگنی کی تھی، اس دوران عمران خان کی سابق اہلیہ جمائمہ خان کے بھائی کا گبریلا سے معاشقہ شروع ہو گیا، گبریلا کے خاندان نے یہ کہہ کر منگنی توڑ دی تھی کہ جمائمہ خان کی ناکام شادی کی طرح ایک اور شادی نہیں ہونی چاہیے ۔آتش تاثیر نے گبریلا سے تعلق کے بارے میں کہا کہ میرا گبریلا کے ساتھ اچھا وقت گزرا ” ہیلو میگزین “ نے گبریلا اور میرے تعلق کو غلط انداز میں پیش کیا تھا ۔


( روزنامہ جسارت 2009-03-19 )




 ‪shehr bano taseer‬‏ کیلئے تصویری نتیجہ


سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی بیٹی شہربانو تاثیر نے ناموس رسالتﷺ قانون کے مسئلہ پر اپنے والد کے موقف کی تائید کرتے ہوئے اس عز م کا اظہار کیا ہے کہ ان کے والد نے ناموس ِ رسالت ﷺ کے قانون میں ترمیم کے حوالے جو کچھ سوچا تھا وہ ان کی ( یعنی سلمان تاثیر کی بیٹی ) زندگی میں ضرو شرمندہ تعبیر ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ان کے والد آئین کے اس شق کے مخالف تھے جس میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ گزشتہ احمدیوں کی عبادت گاہ پر حملے کے بعد جب ان کے والد نے جائے وقوع کا دورہ کیا، متاثرین کے گھر گئے اور اسپتال میں زخمیوں کی عیادت کی تو اسی وقت سے انہیں فون پر سنگین نتائج کی دھمکیاں ملنی شروع ہوگئی تھیں۔شہر بانو تاثیر نے پاکستان کے عدالتی نظام میں اہم اور بنیادی اصلاحات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ جب پاکستان کی ہائی پروفائل شخصیت اور سب سے بڑے صوبے پنجاب کے گورنر کو تحفظ نہیں فراہم کیا جاسکا تو اس ملک میں عام آدمی کا کیا حال ہوگا؟میرے والد کو بابابلھے شاہ کی طرح بھلایا نہیں جاسکے گا،وہ نہ صرف ایک بہادر انسان بلکہ قوم کے ہیرو ہیں۔ ان خیالا ت کا اظہار انہوں نے بھارتی ٹیلی ویژن کو انٹرویو میں کیا۔ شہربانو تاثیر نے کہا کہ یقیناً والد کے قتل سے ہم سب کو شدید دھچکا لگا ہے جس پر دنیا بھر سے تعزیتی پیغامات آئے، یہ ہمارے لیے مشکل وقت ضرور ہے لیکن ان حالات میں بھی دنیا بھر سے ہماری حمایت میں آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے والدنہ صرف ایک بہادر انسان بلکہ قوم کے ہیرو ہیں۔ ایک سوال پر شہربانو تاثیر نے کہا کہ پاکستان کے موجودہ جوڈیشل سسٹم کے لیے یہ امتحان کی گھڑی ہے کہ ہمارے ججز حضرات، پراسیکیوٹر اور وکلاء اس معاملے کو کس طرح لیتے ہیں۔
 





ممتاز قادری پنجاب کی ایلیٹ فورس کا اہلکار تھا اور وہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے سرکاری محافظوں میں شامل تھا، ا س نے گورنر کو جنوری 2011ء میں اسلام آباد میں ایسے وقت گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا جب سلمان تاثیر ایک ریسٹورنٹ سے نکل کر اپنی گاڑی میں بیٹھ رہے تھے۔پنجاب کے ا س وقت کے گورنر سلمان تاثیر نے 2010ء میں ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو توہین مذہب کے ایک مقدمے میں سزا سنائے جانے کے بعد، ا س خاتون سے جیل میں ملاقات کی تھی اور موجودہ قوانین میں ترمیم کا مطالبہ کیا تھا۔ ممتاز قادری نے گرفتاری کے بعد اپنے اعترافی بیان میں کہا تھا کہ ا س نے سلمان تاثیر کو اس لیے قتل کیا کیوں کہ گورنر نےتوہین رسالت کے قانون کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے اس کی تبدیلی کی حمایت کی تھی۔اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے 2011ء میں ممتاز قادری کو دو بار سزائے موت اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ممتاز قادری نے اس سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی جس پر عدالت عالیہ نے انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت ممتاز قادری کو سنائی گئی سزائے موت کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ تاہم فوجداری قانون کی دفعہ 302 کے تحت اُس کی سزائے موت کو برقرار رکھا گیا۔لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف جب سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تو عدالت عظمٰی نے ممتاز قادری کی اپیل خارج کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کو بحال کر دیا تھا۔سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ توہین مذہب کے مرتکب کسی شخص کو اگر لوگ ذاتی حیثیت میں سزائیں دینا شروع کر دی جائیں تو اس سے معاشرے میں انتشار پیدا ہو سکتا ہے۔ عدالت عظمٰی کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف ممتاز قادری نے سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی بھی درخواست کی لیکن اسے بھی 
خارج کر دیا گیا۔








سلمان تاتیر کا بیٹا شہباز جو طالبان کی قید میں تھا اور اسے ۸ مارچ ۲۰۱۶ کو بازیاب کرایا گیاہے